Posts

Showing posts from 2020

‎خود ‏شناسی

Image
خود آگاہی کے راستے پر چل نکلنے والے کو اپنی زندگی میں پیش انے والے سب مسائل کا ادراک، اُنکی وجہ، اور اُن مسایل سے نکلنے کا حل پتہ ہوتا ہے۔ اب آگلی منزل ہوتی ہے عمل کی۔ طریقہ کار کی۔ آغاز کرنے کی۔  یہ اصل مشکل مرحلہ ہے۔  اسکی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو اُسکی جسمانی بیماری کی وجہ پتہ لگ جائے، دوائی خرید کر لے ائے اور اُسے فریج میں لا کر رکھ دے اور پھر بیڈ پر لیٹ جائے۔ اب جب تک خود اٹھ کے دوائی کو اسکے مقرر کیے ہوئے وقت پر نھی کھائے گا ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اور بیماری کی شدّت بیڈ سے اٹھنے نھی دیتی۔ اسی طرح خود آگاہی کی مثال ہے۔ خود آگاہی کے عمل سے پتہ لگ گیا کے زندگی میں وقت کا ضیاع ایسی بیماری ہے جسکی وجہ سے زندگی میں سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ معلومات میں اضافہ نھی ہوتا۔ غیر ضروری سرگرمیوں کی وجہ سے نئی نئی کارآمد چیزیں نھی سیکھ پاتے۔ مزید تحقیق کی تو پتہ لگا کے اسکا علاج ہے کے  زندگی سے انرجی ڈرین کرنے ولی سرگرمیاں ختم کی جائیں۔ فیسبوک پر بحث مباحثہ ختم کیا جائے۔  یوٹیوب پر وقت کو ضائع کرنے والی انٹرٹنمںٹ ویڈیو دیکھنا ختم کیا جائے۔ کوئی کتاب پڑھنی شروع کی جائے۔...

یقین ‏کامل

Image
زندگی میں مایوسی سی بچانے والی جہاں بےپناہ چیزیں ہیں وہاں ایک اللہ کی طرف سے معجزہ ہونے پر یقین رکھنا ہے۔ بلکہ یوں کہیں خالی یقین نہیں یقین کامل ہونا ہے۔ انسان محنتی ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کبھی نتائج اچھے ملتے ہیں کبھی ناکامی ہوتی ہے۔ یہ نارمل عمل ہے۔ مایوسی وہاں اتی ہے جب انسان ہر محنت کے عوض صرف کامیابی ہی فرض کر لیتا ہے۔  حالاں کہ ہماری ناکامی جہاں ایک طرف ہمیں سبق دیتی ہے وہیں دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زندگی میں اگر دوسروں کی مثالیں نہ ہوں تو شاید انسان کے لیے سیکھنے کا عمل بہت سُست ہو جائے۔  جب بھی کسی کام کو کرنے کا خیال اتا ہے تو انسان اس کے اچھے برے نتائج سوچتا ہے۔ کس نے کیسے اس کام کو کرنے کی کوشش کی وہ کیوں ناکام ہوا یا اُسے کیوں فائدہ ہوا۔ یہ سب تجربے ہمیں سیکھنے کا موقع اور کامیاب ہونے کا ہنر بتاتے ہیں۔ جب زندگی میں سب اچھا چلنے لگے تو انسان کی زبان پر شکر کا ترانہ بنا چاہئے۔ اور ناکامی کی صورت میں توکل کا۔ یہ بڑا اہم موڑ ہے۔ ناکامی کی صورت میں اگر زبان پر شکوے آ گئے کے میں نے تو محنت کی تھی پتہ نھی کیوں نھی کاروبار چلا، پتہ نہی...

سراغ ‏زندگیِ

Image
اچھا سنو، جب انسان کا مقصد بڑا ہوتا ہے نہ تو راستے کی چھوٹی مشکلات سے گھبرانا نھی چاہئے۔ اپنی زندگی کا ایک گول بناؤ۔ اس تک جانے کی لگن رکھو۔ بنا کسی گول کے زندگی کا سفر محض ایک مشقت ہے۔ ایسے سفر میں انسان لطف اندوز نھی ہو پاتا۔ جب منزل کا پتہ ہو تو انسان راستے کی مشکلات کا بھی حساب کتاب لگا لیتا ہے۔ جب تم ایک منزل کو ٹارگٹ کر کے زندگی بسر کرو گی تو تم لوگوں کے رویوں سے متاثر نہیں ہوا کرو گی۔ تمہاری آواز کے لہجے خود ہی بدل جائیں گے۔ اور زندگی میں انسان ایک مقصد وہ بناتا ہے جسکا اُسے خود کو فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر بننا ہے لکھاری بننا ہے کاروباری بندہ بننا ھے۔  دوسرا مقصد انسان کا وہ ہونا چاہئے جس سے وہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے۔ جو بنا کسی ذاتی فائدہ کے ہو۔ ایسا مقصد جو صرف اللہ کی مخلوق کے لیے ہو۔ جس سے نہ تو دل میں فائدے کی تمنّا ہو اور نہ دکھاوے کی۔ نہ لوگوں سے کوئی تعریف کی غرض ہو۔ وہ صرف اور صرف اللہ کی خاطر اُسکی مخلوق کے فائدے کے لیے ہو۔۔۔۔ مثال کے طور پر اللہ سے خواہش کرنا کے کے اتنا رزق دینا کے تیری مخلوق میں بانٹ سکوں۔  اتنا رزق دینا کے میرے شہر میں کوئی ب...

حُب ‏رسول

Image
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔  میں کوئی عالم دین نہیں نہ کوئی مبلغ اور واعظ کرنے والا ہوں۔میں بھی آپ ہی کی طرح دنیاوی تعلیم کے حصول کا طالب اور اس فانی زندگی میں مصروف عمل ایک گنہگار انسان ہوں۔ یہ جو آج یہاں پر آپ کے سامنے اللہ اور اسکے رسول کے ذکر کا موقع مل رہا ہے یہ سب اُس سوچ کی بدولت ہے جو االلہ کے ایک نیک بندے کی صحبت میں بیٹھنے سے نصیب ہوئی اور اللہ پاک نے اپنے اس نیک بندے کی کمپنی کی بدولت میرے اندر بھی عشق رسول اور خوف خدا کی شمع روشن کر دی۔  خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر پیارے آقا نے فرمایا کہ آج کے دن تم پر اپنا دین مکمل کردیا اور اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا۔ اس خطبہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کے اب اصلاح امت کا کام کرنے کے لیے انبیاء کا رول مکمل ھوا اب یہ ذمےداری مسلمانوں پر اتی ہے کے وہ اپنے اندر علماء پیدا کریں فقہاء پیدا کریں۔ صالحین متقین لوگوں کے پاس بیٹھ کر دين سیکھا کریں۔ہم نے کیا کیا، نا تو خود دین سیکھا نہ اللہ کے نیک صالحین بندوں کی صحبت اختیار کی۔ نتیجہ کیا نکلا آج ہم نام کے مسلمان رہ گئے۔ ہمارے اندر سے روح بلالی نکل گئی۔ اقبال نے کیا خوب کہا۔  ر...

فیصلہ کرنے کی صلاحیت

Image
  انسان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو اسکے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے . بہت سے لوگ مشکل سے مشکل صورتحال میں اچھے بروقت فیصلے کر کے خود کو اس مُشکِل صورتحال سے نکال لیتے ہیں کچھ لوگ آخر وقت تک یہ نہیں طے کر پاتے كے ان کو کونسا رستہ اَپْنانا ہے . ضروری نہیں کہ ہر انسان كے اندر یہ خصوصیت پائی جاتی ہو۔ بہترین انسان وہ نہیں جس كے اندر قدرتی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہو اور وہ قدرت کی اس نعمت کو احسن طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے نئی راہیں ہموار کرتا جائے .بلکہ انسانیت کی معراج اس چیز میں ہے کہ جو صفت آپ كے اندر دوسری صفات کی نسبت کم پائی جاتی ہے آپ اسکو کو ڈیولپ کر لیں . گزرتے وقت كے ساتھ آپ اپنی زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات سے سیکھتے ہوئے اپنی گرومنگ کرتے جائیں اور خود كے اندر چھپی ہوئی صفات کو عملاً ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہیں . اسکی بڑی مثال گھر کی ہے . اگر گھر میں کوئی بچہ ہے وہ اپنے والدین کو دیکھتا ہے كے وہ ہر مشکل گھڑی کا بھی باسانی سامنا کر لیتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں. حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لیتے ہیں . اور اس فیصلے كے غلط ثابت ...

ٹسل

Image
  پاکستان میں لبرلزم اور مذہبی طبقے میں ہمیشہ ایک ٹسل پائی جاتی ہے   اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کو بنانے میں اہم کردار والے رہنماؤں جن میں محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نام منفرد ہیں کی سوچ یہی تھی کے پاکستان اللہ کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور اسکا آئین قرآن و سنت کے حکم کے مطابق ہوگا۔اس ملک کی معیشت سود سے پاک چلے گی۔ اس ملک میں امیر غریب سب برابر ہوں گے کیوں کے قرآن نے فضیلت کے معیار تقویٰ کو رکھا ہے۔ اس ملک میں اقلیتوں کو برابر شہری حق دیا جائے گا جیسے کے ریاست مدینہ میں اللہ کے نبی نے دیے تھے اور ایک مسلمان بھی یہودی سے قاضی وقت کے سامنے مقدمہ ہار جایا کرتا تھا۔ ایک بات ذہن نشین کر لیں کے کسی بھی قوم کو چاہئے مذہبی بنیاد پر قائم کرنا ہو یہ سیکولر بنیاد پر جب تک اس قوم میں قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہوگا وہاں مذہب یا سیکولر نظریات شک کا شکار رہے گے۔ قانون کی کمزوری کی وجہ سے لوگ جب کسی غلط کام میں ملوث ہوں گے تو لوگ اسے مذہب یہ سیکولرزم کی تعلیم سے تعبیر کریں گے۔ یہی حال پاکستان کا ہوا۔ یہاں پر دستور تو قرآن و سنت کو مان لیا گیا۔مگر اُسکی عملی تصویر اس لیے نہ...

اُمید ‏کے ‏دیے ‏

Image
زندگی میں آپکو اپنی نیچر پر قیام رہنا ہے . اچھی نیچر کا انسان ویسے ہی اس دنیا كے لیے باعث رحمت ہوتا ہے . مگر کبھی کبھی اچھی طبیعت كے اچھی عادات كے باوُجُود آپکا وجود دوسروں كے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے.  ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ آپکا عمل اچھا ہوتا ہے مگر اس عمل كے بَعْد آپکی امید اور توقعات کا بوجھ آپکے اس عمل کو آپکے لیے زہر بنا دیتا ہے۔  اسکی ایک عملی شکل ہاسٹل لائف ہے۔ یونیورسٹی لائف میں اگر آپ دوستوں كے ساتھ شیئرنگ میں رہتے ہیں اور فطرتاً آپکے اندر یہ خصوصیت ہے كے آپ ہر چیز شیئر کر کے كھانا پسند کرتے ہیں . اکیلے کھانے میں آپکو وہ مزا نہیں آتا۔ اور آپ ہر کھانے کے وقت اپنے ساتھیوں کو شامل کرنا پسند کرتے ہیں . یہاں تک دیکھا جائے تو سب صحیح ہے۔  آپکی یہ عادت انبیاء والی ہے . یہ آپکو روحانی عروج بھی دے گی اور دنیاوی عزتیں بھی. پر جب آپ دوسرے دوستوں سے بھی یہ امید کرنے لگتے ہیں کے وہ بھی آپکے ساتھ شیئر کر کے کھایا کریں گے تو اب گڑ بڑ شروع ہو گئی . نا چاہتے ہوئے آپ نے اپنے درمیان ایک دیوار پیدا کرنا شروع کر دی ہے. آپکی اس سوچ سے نیگیٹو انرجی نکلے گی و...

زندگی ‏کا ‏صابن

Image
نا چاہتے ہوئے اُسے دکان پر جانا پڑا۔ رات ہو رہی تھی۔ موسم ٹھنڈا تھا۔ شٹر نیچے کیے دکاندار شاید نوٹ گننے میں مصروف تھا۔  تک تک تک۔ ارے بھائی سنتے ہو۔  دکان بند ہے بھائی کل انا۔ اندر سے تھکی ہوئی آواز ائی۔  ارے بھائی بس ایک صابن ہی تو چاہئے۔ دے دو نہ۔ اتنے میں ہلکی سی لائٹ شٹر کے نیچے سے نمودار ہوئی۔ اور دکاندار نے شٹر اٹھا کر صابن پکڑا دیا اور جملہ کستے ہوئے کہا کیوں بابو اس ٹائم کیا ضرورت پڑ گئی صابن کی۔ کوئی خاص مہمان آ گئے کیا جو نئی صابن کے بنا ہاتھ نھی دھوتے۔   اس نے جھٹ سے صابن پکڑا۔ جیب میں ڈالا اور سو کا نوٹ دکاندار کو تھما دیا۔  دکان دار کا دھیان اب نوٹ والے باکس پر تھا۔ ہاتھ بقایا نکالنے میں مصروف اور کان گاھگ کی طرف لگائے دکاندار اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔ ارے نہیں مہمان کوئی نھی ائے۔ وہ چھوٹے بچے کے لیے قاری صاحب گھر اتے ہیں قرآن پڑھانے۔ کیا جادو ہے انکی آواز میں۔ قراءت کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جس امام سدیس کی آواز ہے۔ بس کبھی کبھی ہم بھی اُن سے فرمائش کر دیتے ہیں کے سورہ رحمن کی تلاوت کر دیں۔ اج انکی تلاوت سنی۔ خوب مسرور ہوئے...

‎آخر ‏کون ‏افضل ہے

Image
دنیا اس وقت سوچ رہی ہے کے زمین کے علاوہ بھی کسی اور سیارے پر زندگی بسائی جائے۔ انسان کی موت کا علاج دھنڈھنے پر میڈیکل سائنس دِن رات کوشاں ہے۔ اور ہم پاکستانی عوام ابھی تک اس کمپلیکس سے نھی نکل پائی کے مرد زیادہ عظمت والا ہے یا عورت۔ اس پر بحث زیادہ تر وہ لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو دنیاوی تعلیم میں تو پیک پر ہوتے ہیں لیکن خود قرآن کو نھی سمجھتے۔ نہ احادیث مبارک سے خود استفادہ کرتے ہیں۔ بلکہ اُنہیں جس عالم کی بات طبیت کے مطابق لگتی ہے اس کو اپنے لیے دلیل مان لیتے ہیں۔ اگر ایک لڑکی یہ یقین رکھتی ہے کے وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور خود کو مرد کے برابر یا اس سے بہتر سمجھتی ہے تو اسکے سامنے مرد اگر سورہ بقرہ کی آیت 228 لے ائے اور کہے کے مرد سپیریئر ہے تو لڑکی نومان علی خان جیسے اسکالر کا موقف پیش کرتے ہوئے کہتی ہے کے دیکھو یہ آیت تو طلاق کے بارے میں ہیں۔  پھر جب جواب میں لڑکی کہتی ہے کے اللہ کے نبی نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا کے کوئی کسی سے بر تر نھی رنگ نسل کی بنیاد پر۔ تو مرد خود کو کیوں سمجھتا ہے فضیلت والا تو لڑکا آگے سے وہ احادیث سناتا ہے جس میں ا...

آزاد قیدی

Image
. اماں میں بڑی ہو کر آزاد بنوں گی کیا مطلب تیرا ثوبیہ ، ابھی تو کون سا قید ہے؟ اماں تو کتنی بھولی ہے . تو نے ساری عمر اس ایک گھر کی دیواری میں گزار دی ہے . کیا کبھی تیرے اندر آزاد عورت بننے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی؟ اب كے تو ثوبیہ کی اماں کو جیسے ہوش نا رہا ہو . فوراً کام چھوڑ کر بیٹی کی طرف آئی. اماں: کیا آزادی کی باتیں کر رہی ہے بیٹی ؟ ہم سب آزاد ہیں . اور میرا گھر یہ چار دیواری یہاں میں آزادی سے رہ رہی ہوں. سچ بتا آج کیا پڑھایا تیری مس نے. ثوبیہ بولی: اماں ایک نئی مس آئی ہے . اُس نے آج ہمیں سکھایا کے ہم لڑکیوں کی آزادی کیا ہوتی ہے . یہ جو تو صبح صبح مجھے تیار کرتی ہے۔ میرے سر پر ڈوپٹہ لپیٹ کر اسکول بھیجتی ہے. پھر ابراہیم بھائی کو نیند سے اٹھا کر کہتی ہے جا پہلے ثوبیہ کو چھوڑ آ اسکول پھر ناشتہ کریو آ کر. پھر اسکول میں خرچے کے لیے ابّا کی جیب سے پیسے نکال کر مجھے دیتی ہے. یہیں سے تو تو میری آزادی سلف کرنی کی بنیاد رکھتی ہے . تیرے ہاتھ کا ناشتہ ، ابّا کے جیب کے پیسے ، ابراہیم کی سائیکل کی سواری یہیں سے تو نے میرے محتاج ہونے کے نظریے کی بنیاد رکھ دی۔ اچھا رک ذرا ، اماں نے ٹوک...

ضمیر بھائی

Image
پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر کرتے ہوئے کافی کرکٹ کھیلی۔ ایک دوسرے  ڈیپارٹمنٹ کا لڑکا اکثر ملا کرتا تھا۔ کرکٹ ہم دونوں بہترین کھیلتے تھے اور اتفاق سے بول چال میں بھی اچھے تھے تو جلدی ہائے ہیلو ہونے لگی۔ ایک روز اسکی ٹیم سے سالانہ سپورٹس گالا کا سیمی فائنل میچ تھا پر وہ اس میچ میں نہ کھیلا۔ اتنا اہم میچ اور مرکزی کھلاڑی ٹیم سے باہر۔ بات ہضم نا ہوئی کچھ۔تجسس ہوا اسکے ٹیم کے کھلاڑیوں سے پتہ کیا تو کوئی مناسب جواب نہ ملا ۔ گیم کے بعد اپنے دوست مجید سے اسکے بارے میں دریافت کیا۔ مجید کی دوستی اسکے باقی ساتھیوں سے تھی۔ پتہ لگا کے وہ لڑکا قادیانی ہے۔ اور اسکے کلاس والوں نے اسکا بائیکاٹ کر دیا ہے۔کوئی کہہ رہا تھا کے اس سے تعلق ہمیشہ کے لیے ختم کرو۔ کوئی کہہ رہا تھا اُسے موقع دو اپنی بات کرنے کا۔ کوئی کہہ رہا تھا اُسے علم کی روشنی میں سمجھاؤ۔ پر موقع کون دیتا جب کے مذہبی جذبات اونچے تھے۔ سمجھتا کون کسی کے پاس قرآن کی مکمل دسترس تھی نہ کسی کے پاس احادیث اور مفسرین کی کتابوں کا علم۔ بات بڑی نازک تھی۔ شاید دنیا دار نظر انے والے لوگ اس لیے چُپ تھے کے انکو بھی اسکا ساتھی نہ سمجھ لیا جائے۔اور بظ...

ارطغل سیزن ‏اور ‏آٹھ ‏اسباق

Image
ترکش ڈراما ارطغل کی خاص بات اسکو دیکھ کر ایمان کا بڑھنا ہے۔ ظاہر ہے فی  زمانہ ڈرامے دیکھ کر یہ بات ناقابل یقین  لگتی ہے۔ مجھے بھی کچھ ایسا ہی گمان تھا کے عام سے ڈائلاگ والا کوئی ڈراما ہوگا۔ دوسرا اسکی قسطیں بہت زیادہ ہیں۔ اصل ڈراما پانچ سیزن پر محیط ہے۔ ہر سیزن کی تیس قسطیں ہیں۔ہر قسط دو گھنٹے میں فلمائی گئی ہے۔اس طرح کل ایک سو پچاس قسطیں ہیں۔ نیٹ فلکس پر ہر قسط کو تین اقساط میں توڑا گیا یو یوں نیٹ فلکس پر تقریباً ساڑھے چار سو اقساط ہیں۔اور ہر قسط چالیس منٹ کی ہے۔ اس لیے کافی ٹائم تک اسے دیکھنے کا ذہن نہ بنا۔  کورونا وائرس نے پچھلے ماہ سے جو افرا تفری پھیلا رکھی ہے اور سارا ٹائم گھر گزرتا ہے تو سوچا کیوں نہ آخر ارطغل دیکھ لیا جائے۔ ٹائم تقسیم کیا۔ شارٹ ٹرم پلان سیٹ کیا۔ روٹین بدلی اور قرانٹائن کا پہلا گول حاصل کرلیا۔ ڈراما دیکھنے کے بعد سوچا کہ اُسکی مختصر لیکن جامع حاصلات پر بات کی جائے۔ جو کچھ سیکھنے کو ملا وہ شیئر کیا جائے۔ سبق نمبر ایک۔ دین خالی عبادت کا نام نھی۔ ڈرامے میں دکھای...

کورونا کے مثبت اثرات

Image
Depiction of a True Muslim محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں ۔پیشے کے اعتبار سے میڈیکل کالج میں لیکچرر تھیں ۔  انکے گھر کے ایک طرف ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا گھر تھا۔ گھر کے دوسری طرف ایک علامہ صاحب رہتے تھے۔ گھر کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک علامہ ڈاکٹر رہتے تھے۔ انہوں نے پہلے الیکٹریکل انجینرنگ میں پی ایچ ڈی کی اور پھر آٹھ سال کا درس نظامی کا کورس کیا۔ یوں یہ دنیاوی علم کے ڈاکٹر اور دینی علم کے علامہ تھے۔ ایک روز خاتون کے گھر چوری ہو گئی۔ ہم بھی اماں کے ساتھ انکے ہاں افسوس کرنے چلے گئے۔ہماری موجودگی میں ہی پہلے علامہ صاحب آئے اُنسے افسوس کرنے کے لیے۔ کچھ دیر گفتگو کی اور کہا کے بی بی اللہ پاک کی یہی مرضی تھی۔ جو ہوتا ہے اُسکی مرضی سے ہوتا ہے۔اللہ پر یقین رکھیں اور گھر پر ائتل کرسی  پھونک کر باہر جائیں تو گھر محفوظ رہتا ہے انکے جاتے ہی ڈاکٹر صاحب آ گئے۔ وہ بھی کچھ دیر باتیں کر کے تسلّی دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اور جاتے ہوئے کہنے لگے  آپ کے گھر کا لاک بڑی آسانی سے کھول لیا چور نے اس لیے چوری ہوئی۔ اچھے والے لاک لگوائیں۔ آپکو سیکورٹی کیمرے کی بھی ضر...

ریاست عوام اور رویے

Image
کہا جاتا ہے کے ایک وقت تھا جب ایک قبیلے سے کوئی شخص مہمان بن کر دوسرے قبیلے میں قیام پذیر ہوتا تو مہمان  نوازی کا یہ عالم تھا کے مہمان اگر مجرم بھی ہو تو اسے واپس اپنے قبیلے کے حوالے نھی کیا جاتا تھا۔ اپنے پاس ٹھہرے مہمان کے لیے لوگ دوسرے قبیلوں سے ٹکر جایا کرتے تھے۔ جسکی ایک شکل ارتغل ڈرامے میں دیکھنے کو ملی۔ جب حلیمہ سلطان کو تحفظ دینے اُرتغل کے والد سلیمان شاہ نے جنگ کا اعلان کردیا۔ اور ایک اج کا دور ہے کے ریاست اپنے ہی شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے حقوق مانگنے سے بات شروع ہو کر علحیدگی پسند تحریکوں میں بدل جاتا کرتی ہے۔ ظاہر ہے ریاست جب بحیثیت ماں اپنے بچوں کے تحفظ میں ناکام ہو جائے تو اولاد کے رویے بھی بدل جاتا کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی شک نھی کے پاکستان میں اٹھنے والی ہر تحریک کو جنم دینے والی چیز ہمارے ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ جس دن ریاستی ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اپنے کام کرنے لگ گئے اس دِن عوام کے اندر سے احساس محرومی ختم ہو جائے گا۔  لکھنے کو تو اس نکتہ پر بہت سی باتیں ہیں۔ احساس محرومی اور حقوق کی پاما...

میرے شہر کے لوگ۔

Image
کچھ دنوں سے عورت مارچ پر بہت بحث سننے کو ملی۔ کچھ حضرات اس حد تک عورت مارچ کے مخالف دکھائی دیے کے اُنہیں ہر عمل میں بیرونی سازش دکھائی دی۔ عورت مارچ بےپردگی اور بے حیائی مارچ نظر آئے ، اپنی ثقافت کھو دینے کا ڈر انکو کھائے جانے لگا۔ کچھ لوگ اس حد تک عورت مارچ کے حامی نظر اے کے اُنہیں عورت کے ہر پروبلم کا ذمےدار معاشرے کا مرد اور اسکا حل صرف عورت مارچ میں نظر آنے لگا۔ وہ قانون کی کمزرویوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور عورت کی محرومیوں کو قانون سازی کی بجائے ایسی تحریک سے حل کرنا چاہنے لگے۔ کچھ لوگوں نے اس بارے میں خود کو نیوٹرل رکھا۔ وہ کسی بحث میں نھی پڑنا چاہتے۔ انکے نزدیک بس اپنی عورت کو اخلاق سے ڈیل کرنا اور اپنے گھر کی عورت کو سارے حقوق دینا ہی کافی ہے۔   ایسے سب نظریے دیکھنے کے بعد میں نے بھی سوچا کے معاشرے کے اس بدلتے رنگ و حال میں اپنا پارٹ پلے کیا جائے۔ میرا مقصد کسی بھی طرح کی کیٹیگری کے لوگوں کی سپورٹ کرنا یا تنقید کرنا نھی۔ کیوں کے اگر ہر طبقہ اپنے طریقے سے اپنی سوچ سے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے تو یہ اسکا حق ہے۔ کسی کے نظریات کو زبردستی نھی بدلا ...