زندگی کا صابن
نا چاہتے ہوئے اُسے دکان پر جانا پڑا۔ رات ہو رہی تھی۔ موسم ٹھنڈا تھا۔ شٹر نیچے کیے دکاندار شاید نوٹ گننے میں مصروف تھا۔
تک تک تک۔ ارے بھائی سنتے ہو۔
دکان بند ہے بھائی کل انا۔ اندر سے تھکی ہوئی آواز ائی۔
ارے بھائی بس ایک صابن ہی تو چاہئے۔ دے دو نہ۔
اتنے میں ہلکی سی لائٹ شٹر کے نیچے سے نمودار ہوئی۔ اور دکاندار نے شٹر اٹھا کر صابن پکڑا دیا اور جملہ کستے ہوئے کہا کیوں بابو اس ٹائم کیا ضرورت پڑ گئی صابن کی۔ کوئی خاص مہمان آ گئے کیا جو نئی صابن کے بنا ہاتھ نھی دھوتے۔
اس نے جھٹ سے صابن پکڑا۔ جیب میں ڈالا اور سو کا نوٹ دکاندار کو تھما دیا۔
دکان دار کا دھیان اب نوٹ والے باکس پر تھا۔ ہاتھ بقایا نکالنے میں مصروف اور کان گاھگ کی طرف لگائے دکاندار اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔
ارے نہیں مہمان کوئی نھی ائے۔ وہ چھوٹے بچے کے لیے قاری صاحب گھر اتے ہیں قرآن پڑھانے۔ کیا جادو ہے انکی آواز میں۔ قراءت کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جس امام سدیس کی آواز ہے۔ بس کبھی کبھی ہم بھی اُن سے فرمائش کر دیتے ہیں کے سورہ رحمن کی تلاوت کر دیں۔ اج انکی تلاوت سنی۔ خوب مسرور ہوئے۔ خوب جھومے۔ اتفاق سے انکی بائک خراب تھی تو رکشہ پر ائے تھے۔ اب رات ہوئی تو واپسی کا رکشہ نہ ملا۔ بس اُنہیں بائک پر گھر چھوڑنے گیا تھا۔ پھر کیا یہ جو کنسٹرکشن کی وجہ سے پورا شہر مٹّی مٹّی ہوا وا ہے اسی مٹّی نے اتنا رنگا کے داڑھی بھی خاکی ہو گئی۔ اب واپس آیا تو اتفاق سے صابن بھی ختم تھا۔
دس بیس اور دو یہ ہو گئے بائیس۔ یہ لو بقایا۔ دکاندار نے پیسے گاہگ بابو کی ہتھیلی پر جمائے اور بولا
ارے تو کیوں اتنا رگڑتے ہو صابن کو جو جلدی ختم ہو جاتا ہے۔ زندگی تمہیں رگڑتی ہے تم صابن کو رگڑ دیتے ہو۔ اس نے پیسوں والا باکس بند کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا۔
کیا مطلب ہے اسکا۔ بابو نے پوچھا۔
ارے بھائی مطلب کو چھوڑیئے۔ ہم دکاندار لوگ سارا دِن راہ چلتے لوگوں کو تکتے ہیں۔ کون کندھے اٹھا کر چلتا ہے کون جھکا کر۔ کون خوش ہے اور کس کو زندگی رگڑ رہی ہے ہمیں چال دیکھ کے پتا لگ جاتا ہے۔ اب دکاندار سیریس تھا۔
تم اپنا میل اُتارنے کے لیے خود کو صابن سے رگڑتے ہو۔ صابن پگھل جاتا ہے لیکن تمہیں صاف کر جاتا ہے۔ اسی طرح
زندگی تمہارے بد اعمالی کے میل کو اُتارنے کے لیے تمہیں وقت کے ساتھ رگڑتی ہے۔ زندگی کا صابن وقت ہے۔ جیسے جیسے وقت ختم ہوتا ہے تم بوڑھے ہونے لگتے ہو ویسے ویسے دل کے صاف ہوتے جاتے ہو۔
اسی لیے تو لوگ بوڑھے ہو کر نمازی بنتے ہیں۔ بیٹی کے باپ بن کر حیا دار بنتے ہیں۔ خود کمانے لگتے ہیں تو باپ کی کمائی کا احساس کرتے ہیں۔ اپنی جوان اولاد کی نافرمانی دیکھتے ہیں تو اپنی نافرمانیاں یاد اتی ہیں۔
تو تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہو۔ بابو نے پوچھا۔
اب تیسری بار بتاؤں کیا۔
جیسے ہی یہ الفاظ اسکے کانوں سے ٹکرائے، صابن ہاتھ سے گرا، چہرے پر سوالیہ تاثرات ائے۔
اسکا وجود اُسے ریزہ ریزہ ہوتا محسوس ہوا۔ اور جسم کا ایک ایک حصہ الگ ہو کر گول گھومتے ہوئے ہوا میں معلق ہوا۔وہ ہوا اس سب کو لیکر اس دنیا سے اوپر اٹھتی گئی۔اتنا اوپر اتنا اوپر کے اب دنیا باریک سا ایک گیند دیکھنے لگی۔اور اسکا جسم جیسے بلیک ہول میں سے نکل کر یک دم اُسکی آنکھوں میں آ گیا۔ اُسنے اسی دباو سی آنکھیں کھولیں۔ وہ اپنے سفید چادر والے بستر پر تھا۔ پیسنے سے شرٹ بھری ہوئی، ہاتھ ہلکے نمدار، چادر ایسے گیلی جیسے کسی نے گلاس کا بچا ہوا پانی ڈالا ہو۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے بال اوپر کیے۔اگلے ہی لمحے اپنی داڑھی کو ہاتھ لگایا جیسے مٹّی محسوس کرنا چاہتا ہو۔ پر ایسا تو کچھ بھی تھا۔ افرا تفری کے سے عالم میں غسل خانے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے رکھی صابن کو دیکھا۔ جیسے وہی خواب والا صابن ہو اور یہ اس سے پوچھنا چاہتا ہو کے اس خواب کی تعبیر کیا ہے۔
اُسے معلوم نہیں تھا کے کچھ خوابوں کی تعبیر نھی ہوا کرتی۔ وہ تو انسان کو جگانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اس نیند سے جگانے کے لیے جو انسان کو کھلی آنکھوں کہ ساتھ سلائی رکھتی ہے۔ جس میں انسان اپنے اعمال کا میل دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔
لیکن اب تیسری بار یہی خواب دیکھنے کے بعد اس نے خود سے عہد کرلیا تھا کے زندگی کے صابن کو ہے مقصد پگھلنے نھی دے گا۔ اُسے لگا شاید یہ اُسکی کسی اچھائی کا بدلہ ہے جو اُسے زندگی خود مہلت دے رہی ہے۔ ورنہ کتنوں کو تو وہ دوسرا موقع نہیں دیتی۔
Comments
Post a Comment