حکمت جزبات سے بہتر ہے

 ایک بات اپ لکھ لیں جب تک پاکستان میں لوگ قران پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا تفسیر سمجھنا نہیں شروع کریں گے تب تک ان کو دین جذبات کی حد تک ہی نظر ائے گا۔ سورہ نحل کی ایت125 میں اللہ فرماتا ہے کہ 

 اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان کے ساتھ بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔

لیکن یہ ایت اپ دو بندوں کو سنائیں ان پہ اس کا مختلف اثر ہوگا ایک وہ بندہ جو حکمت سے کام لینا جانتے ہیں جنہوں نے اللہ کے نبی کی سیرت کو اچھی طرح پڑھا ہے وہ اس ایت سے یہی مطلب لیں گے کہ ہمیں دین میں نرم مزاجی برداشت حکمت سے کام لینا ہے اور جذباتی بنیادوں پہ کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا قتل و غارت نہیں کرنی۔الزام تراشیوں کا جواب الزام تراشی سے نہیں دینا اور اگر کسی کے بارے میں کوئی غلط بات سامنے ائے تو اس کی خوب تحقیق کرنی ہے پھر اس پہ کوئی راے قائم کرنا ہے۔ اور فیصلہ  خود نہیں دینا بلکہ قانون کے تحت معاملے کا حل نکالنا ہے۔

لیکن جب اپ یہ ایت دوسرے شخص کو سناتے ہیں جو ساری عمر جذباتی تقاریر سن کے دین کو سمجھ سکا ہے وہ اس کے مقابلے میں اپ کو دو چار ایسے واقعات سنائے گا جس سے اپ خود لگنے لگ جائے گا کہ شاید میں تو دین کے بارے میں کوئی غیرت ہی نہیں رکھتا وہ اپ کو سنائے گا کہ کس طرح کفار سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے کس طرح بدتمیزی کرنے والوں کے ساتھ نمٹا گیا ہے۔وہ اپ کو ایسے واقعات ضرور بتائے گا جس میں صحابہ کرام نے تلوار کے ساتھ فیصلے کیے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتائے گا کہ وہ تلوار جن صحابہ کے ہاتھ میں تھی وہ اپنی روز مرہ زندگی میں کیسے تھے کس طرح سے وہ اپنے اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے وہ ناپ تول میں کمی نہیں کرتے تھے وہ کسی کا مال ناحق نہیں کھاتے تھے وہ کسی کی خواتین کی طرف نظریں اٹھا کے نہیں دیکھتے تھے وہ کرپشن نہیں کرتے تھے۔ وہ خدا کو چھوڑ کے کسی اور سے مدد نہیں مانگتے تھے انہوں نے اللہ کے علاوہ کسی کو معبود نہیں سمجھا تھا انہوں نے وسیلے کے نام پر بزنس نہیں بنائے تھے بلکہ دین کی ایک ایک بات کو مانتے تھے وہ خدا کے ساتھ ڈائریکٹ کنیکشن کو غلط نہیں سمجھتے تھے وہ یہ تشریح نہیں کرتے تھے کہ خدا کو پانے کا راستہ قران اور حدیث نہیں بلکہ اس دنیا میں چلنے پھرنے والے لوگ ہیں جو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اللہ نہ چاہے تو وہ کسی کو رزق نہیں دے سکتے وہ سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتے وہ مردے کو زندہ نہیں کر سکتے۔

اللہ کے ساتھ ایسا تعلق قائم کر کے وہ اس منزل پہ پہنچے تھے کہ کوئی اگر اللہ، رسول اللہ کے خلاف بات کرتا تھا تو وہ تلوار سے فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔

اور اج کا پاکستانی مسلمان ساری تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے حکمت کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف تلوار سے فیصلہ کرنے کو ہی صحیح سمجھتا ہے۔اور شاید اسے سمجھ تب اتی ہے جب وہ تلوار اس کے اپنے ہی گھر میں چلتی ہے۔پھر اسے دوسروں کے گھر اجڑنے کا غم سمجھ میں اتا ہے۔ تو فیصلہ اپ نے خود کرنا ہے یا تو قران کو ترجمہ تفسیر سمجھ کے حکمت کے راستے پہ انا ہے یا پھر وہ تلوار جب اپ کے اپنے گھر کا رخ کرے گی تب اپ نے سمجھنا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل