ہائے ‏ہائے ‏عربی

انگریزی سیکھ لو کیونکہ دنیا کے  ساتھ چلنا ھے اور دنیا کی سپر پاور یہ بھاشا بولتی ھے۔   یے موقف اکثر سننے کو ملتا  ھے۔ ملک کا بہت زیادہ پڑھا لکھا طبقہ اکثر اس کی حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 
دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو شاید کم روشن خیال تصور کیا جاتا ہے جو انگریزی کو محض ایک زبان سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔اور انکی طرف سے کہا جاتا ہے کے کل کو چائنا سپر پاور بن گیا تو کیا ہم چائنیز سیکھنے پر لگ جائیں۔ اس لیے قوم کو اپنا تشخص برقرار رکھنا چاہئے اور انگریزی کو محض ایک زبان کے طور پر پڑھیں اور ضرورت جتنی سیکھیں اور بولیں.
یہ دونوں دلیل اپنی جگہ سچ ہیں۔ ہر انسان کی انفرادی سوچ ہے لہٰذا اس طرح کا اختلاف رکھنا کوئی بری بات نہیں. لیکن انسان کا چیزوں کو پرکھنے کا معیار ایک جیسا ہونا چاہئے. ابھی پاکستان میں بچوں کو عربی زبان پڑھانے کا بل پاس ھوا تو انگریزی سے لگاؤ رکھنے والے  طبقہ کی طرف سے تنقید کے نشتر چل نکلے۔اس کی مخالفت میں طرح طرح کی منطق پیش کی گئی۔ کہا گیا کہ قومیں ایسے ترقی نہیں کرتیں۔عربی جن کی زبان ہے وہ کونسا عربی کی وجہ سے بہتر مسلمان بن گئے۔
 اور کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں جب انگریزی کو سرکاری سکولوں میں  زبردستی نافذ کیا گیا تو انگریزی سے پیار کرنے والے خود کو ٹیکنیکل سمجھنے والے کسی دوست نے اعتراض نھی کیا- حالانکہ وہ کۂہ سکتے تھے کے قومیں اپنی قومی مادری زبانوں میں ترقی کرتی ھیں۔
 قول اور فعل کا یہ تضاد اور بس اپنے موقف کو حق قل سمجھ لینا ہمارے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے۔
جب جب پاکستان میں مذھبئ طبقہ کسی بات پر شدت دیکھاتا ھے تو ھمارے نیم مذھبی دوست کہتے ھیں کے دین چند مولویوں کے ھاتھ میں تھما رکھا ھے اس  لیے یہ شدت پسندی ھے ھر بندے کو چاھیے خود دین پڑھے اور عمل کرے ھمارا دین تو بھت اسان ھے۔
اچھا اب سوال یے ھے کے انگریزی سمجھنے کے لیے بچپن سے انگریزی سیکھاتے ھیں تب جا کر انگریزی میں لکھا پیپر سمجھ اتا ھے۔ لیکن دین کو سمجھنے کے لیے قران جس زبان میں ھے وہ کیوں نہ سکھای جاے؟ اور پھر بچہ  بڑا ھو کر کسی مولوی کی باتوں میں ا کر شدت جذبات میں کچھ کر گزرے تو کہتے ھیں کہ اس کو چاھیے تھا خود دین پڑھتا تا کہ اسکو سمجھ اتی کے دین تو امن کا نام ہے
اب کوی یے نہ سوچے کے شدت پسند صرف مذھب میں ھوتے ھیں۔ یے شدت پسند تو ھر طبقہ میں پیدا ھو جاتے ھیں جس کاُجتنا بس چلتا ھے وہ اتنی شدت سکھاتا ھے۔ مولوی دین کے نام پر پیروکار کو عورت کے پردے،  مردوں کی داڑھی، ٹخنوں سے اوپر شلوار جیسے مسعلوں میں پھنساے رکھتا ھے تو دوسری طرف انگریزی شدت رکھنے والے سیکورٹی کے نام پر پورے پورے ملک اجاڑ کر رکھ دیتے ھیں۔ 
خیر یہ آج کا موضوع نہیں۔ بات ہو رہی تھی عربی زبان کی۔ اعتراض کیاُجا رھا ھے کے عرب والے عربی سمجھتے ھیں وہ کونسا سدھر گئے ھیں۔ یہ بہت ھی معصومانہ  اعتراض اور کم عقلی کی  دلیل ھے۔ اسکا مطلب تو ہوا کے ہر انگریز ریسرچ پیپر سمجھ سکتا ہے لکھ سکتا ہے کیوں کے وہ بچپن سے انگریزی بول رہا ہے۔ اور ایسا نھی ھے کے عربی سیکھ کر اپکے اخلاق فوراا بدل جایں گے۔اپکی  نظریں جھک جایں گی اپکے ھاتھوں سے لوگ محفوظ ھو جایں گے۔ بلکہ میرا ماننا ھے کے قران کو  عربی میں  پڑھ کر سمجھ اے گی کے کون سے ٹاپک اھمیت والے ھیں اور کون سے نھی۔
اپکو سمجھ اے گی کے عورت کا پردہ نہ کرنا صرف امت کے زوال کی وجہ نھی
اپکو سمجھ اے گی کے نیک مرد کی نشانی صرف داڑھی نھی
اپکو سمجھ اے گی کے صرف بزرگوں کے قصہ سنا کر دین پھیلانا اصل طریقہ نھی۔ 
اپکو سمجھ اے گی کے غیر مسلم سے سلوک کیسا رکھنا ہے 
اپکو سمجھ اے گی کے اللہ کے نام پر کسی بے گناہ کا خون بہانا جائز نھی۔
اپکو سمجھ اے گی کے قران تو غور فکر کی تعلیم دیتا ھے۔ 
اپکو سمجھ اے گی کے دنیا بھی اھم ھے ایسا نھی کے ھر بندہ صوفی بن کرُدنیا سے نفرت کرنےُلگ جاے۔



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

فضائے بدر

یقین ‏کامل