فضائے بدر
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار
اندرقطار اب بھی
تاریخ کے عظیم شاعر نے اس ایک
شعر میں امت مسلمہ کو جنگ کی اصل حکمت عملی سمجھا ڈالی ہے۔
اگر آپ اس شعر کے پہلے دو الفاظ فضائے بدر پر غور
فکر کریں تو سمجھ آ جاتا ہے کے مسلمان کس طرح سے جنگ میں اللہ کی حمایت حاصل کر
سکتا ہے۔ کیوں کے اگر جنگ میں نصرت خداوندی شامل ہو جائے تو پسپائی کا سوال ہی
پیدا ہونا نہ ممکن ہے۔ اور مسلمان اگر صرف اپنی زور بازو پر بھروسہ کر کے جنگ
جیتنا چاہے گا تو ہمیشہ نہ مراد لوٹے گا۔ جسکی اعلٰی مثال حضرت عمر نے حضرت خالد
بن ولید کو کمانڈر کے عہدے سے معزول کر کے سمجھائی تھی جب لوگ سمجھنے لگ گئے تھے
کہ شاید فتح حضرت خالد کی شجاعت، اعلیٰ جنگی حکمت عملی، اور لیڈر شپ کی خصوصیات سے
ملتی ہے
فضائے بدر کیا تھی۔ بظاھر تو دو لشکر سامنے سامنے
تھے۔ایک لشکر ہر جدید ہتھیار سے لیس ایک ہزار انسانوں کی پاور اور دوسرا لشکر وُہ
کے 313 لوگ جنکے پاس نہ تو تلواریں پوری نہ انکی بدن پر زرا۔ مگر پھر بھی تاریخ نے
گواہی دی کہ بنا سازو سامان کے وُہ پھٹیے کپڑوں میں ملبوس لشکر فتح پا گیا۔
ایک اور جگہ اقبال نے کیا خوب کہا
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا
ہے بھروسہ
مسلم ہے تو بے تیغ ہی لڑتا
ہے سپاہی۔
فضائے بدر کے ظاہری پہلو کے علاوہ فکر مند اور
قابلِ غور پہلو اُن مسلمانوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت ہے۔ آپکو ان تین سو تیرہ کے
لشکر میں ایک بھی ایسا صحابی رسول نظر نہیں آئے گا جس کے ہاتھ سے کوئی دوسرا انسان
غیر محفوظ ہو۔ انفرادی عبادت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں جتنا زیادہ آپ اللہ کی
عبادت کریں گے اتنا درجات میں بلندی پائیں گے مگر آپکے اندر موجود اخلاقی بیماریاں
ایسی ہیں جس سے معاشرہ برائے راست متاثر ہوتا ہے تو کبھی بھی اللہ کا قرب آپکو نہیں
ملے گا۔
ان تین سو تیرا میں کوئی صحابی رسول آپکو کم تولنے
والا،جھوٹ بولنے والا،اپنے بھائیوں کی جائداد ضبط کرنے والا، زبردستی معصوم بچیوں
کے ساتھ زیادتی کرنے والا، فحشی کو فروغ دینے والا، وعدہ خلافی کرنے والا، لوگوں
پر طنز کرنے والا، نہ انصافی کرنے والا اور تہمت لگانے والا نہیں ملے گا۔ کردار کی
ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور سجدہ ریزی کرنے سے جو شخصیت جنم لیتی ہے وہ
بناتی ہے فضائے بدر۔وُہ آرمی جب تلوار اٹھاتی ہے تو اللہ اُنکا بازو بن جاتا
ہے۔اور ایسے اعلیٰ ترین لوگوں کے لیے پھر اللہ اپنے فرشتے بھیجا کرتا ہے۔
دوسری طرف آپ اپنی حالت ملاحظہ فرما لیں۔ وہ کونسی
اخلاقی بیماری ہے جسکا آپ شکار نہیں۔ و کونسا گناہ ہے جو اس قوم کو اپنی لپیٹ میں
نہیں لیے ہوئے۔ سود کھا کھا کر اللہ کے ساتھ جنگ کرنے والی قوم کیسے اللہ کی مدد
حاصل کر سکتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کے سود اللہ کے ساتھ براہ راست جنگ ہے۔ عوام کی
کام چوری، بددیانتی اور حکمرانوں کی کرپشن، اقربا پروری، اور نہ انصافی سے لیکر
فوج کے اندر شب خون مارنے، شراب پینے، بارڈر پر سمگلنگ نہ روکنے تک کے کارناموں کی
فہرست اٹھا لیں تو اتنی لمبی ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو الفاظ ختم ہو جائیں مگر اس قوم
کی حالت زار کی کہانیاں نہ ختم ہوں۔ ایسے میں اگر کوئی بیوقوف یہ سمجھتا ہے کہ جنگ
کر کے کشمیر فتح کر لیگا تو یہ دیوانے کا خواب ہی سمجھا جائے گا۔ جس غزوہ ہند کے
لیے یہ قوم مچلتی رہتی ہے اسکی تیاری صرف جدید ہتھیار خریدنے سے نہیں ہوگی۔پہلے کردار
ڈیویلپ کر کےایک سہی معنی میں اسلامی قوم بننا ہوگا تب ہی فرشتے اتریں گے مدد کو۔
ہتھیاروں پر بھروسہ کرنے سے اللہ کی تائید نہیں ملا کرتی اسکی مثال دیکھنی ہے تو
غزوہ حنین کا مطالعہ کرلیں جہاں مسلمانوں نے اپنا عظیم لشکر دیکھ کر غرور کے الفاظ
بولتے ہوئے کہا کہ کون ہے جو اس لشکر کو شکست دے سکے گا۔پھر اللہ نے لمحاتی طور پر
جنگ کا رخ مسلمانوں سے پھیر کر اُن پر واضح کیا کہ لشکر کی تعداد تمہیں غرور میں
نہ ڈالے۔ یہ اللہ پر بھروسہ ہے جو تمہیں کامیاب کرتا ہے۔ مورخ لکھتا ہے کے چند
صحابہ کے علاوہ کوئی ایسا نہ تھا جو کافروں کے اچانک شدید حملے کی وجہ سے وقتی طور
پر تتر بتر نے ہوا ہو۔
جس دن پاکستان کے عوام اور حکمرانوں نے اپنے اپنے
اندر فضائے بدر پیدا کرلی تو یقین کریں کہ وہ وقت دور نہیں جب اللہ خد میدان
لگوائے گا آپکو اُتارے گا اور فرشتے بھیج کر آپکو فتح دے گا۔ اور پھر اس شعر کو
دوبارہ پڑھنے کا مزا آئے گا جس میں اقبال کہتا ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار
بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ
خدائی
دو نیم جنکی ٹھوکر سے صحرا
و دریا
سمٹ کر پہاڑ جنکی ہیبت سے
رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ
دل کو
عجب شے ہے لذت
آشنائی
Comments
Post a Comment