ہائے پی ایچ ڈی
اللہ فرماتا ہے جیسا تم مجھ سے گمان رکھو گے مجھے ویسا پاؤ گے . زندگی با ظاہر تو چلتی سانسوں کا نام ہے مگر زندگی کا مزہ متوازن طریقے سے گزارنے والے ہی محسوس کرتے ہیں۔
آپ اگر طلبعلم ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
“ کامیابی دینے والی ذات اللہ کی ہی ہے . میری محنت دنیاوی چیزوں میں مجھے کامیاب نہیں کرا سکتی . ضروری نہیں میں سارا دن دنیاوی کام كے لیے محنت کروں اور اللہ کامیابی بھی دے . لیکن اس بات کی ضمانت اللہ نے ضرور دی ہے كے دینی کام میں محنت کرو گے کامیابی ضرور ملے گی دنیا اور آخرت دونوں میں”
تو آپ کبھی پریشان نھی ہوں گے۔ جیسے کوئی نماز پڑھتا ہے دِل لگا کر تو اسے دنیا میں بھی اطمینان قلب ملتا ہے اور آخرت میں بھی درجات بلند ہوں گے .
تو اگر دنیاوی علم کا طالب ہو کر آپ سارا دن اسی فکر میں لگے رہتے ہیں كے جتنی زیادہ محنت کروں گا اتنی کامیابی ملے گی تو آپ غلطی پر ہیں . آپ غور کر کے دیکھیں اپنے دوستو میں نظر ڈالیں آپکو ایسے لوگ نظر آئیں گے جو کام آپ سے کم کرتے ہیں لیکن ان كے کام میں برکت بہت زدہ ہوتی ہے۔
آپ اگر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں تو شاید آپکو پی ایچ ڈی ٹاپک اتنی جلدی نا مل سکے باوجود اسکے كے آپ سارا دن لیب میں گزارتے ہیں پروفیسر سے ملتے ہیں ٹینشن لیتے ہیں ناکامی کی. گھر واپس آ کر بھی بس كھانا کھایا اور پھر لیپ ٹاپ کھول كے بیٹھ گئے کے شاید مزید ڈھونڈھنے سے کوئی اچھا ٹاپک مل جائے . سارا سارا دن ساری ساری رات گوگل پر گزار دیتے ہیں. نا نماز کا خیال اتا نا اپنی صحت کی فکر ہوتی نا کسی جسمانی ورزش کی طرف خیال ہے نا دوستو كے ساتھ کوئی سیر تفریح کا پروگرام بنایا.
اور آپ ہی کے سرکل میں ایک دوست ہوتا ہے جسے آپ دیکھتے ہیں آپ سے کم پڑھتا ہے آپ سے کم ٹائم لیب میں گزارتا ہے لیکن بسا اوقات پروفیسر خد کہہ دیتا ہے تم اس چز پر کام کرو اور آپ ورطہ حیرت سے اپنی زُبان دانتوں کے بیچ رکھ کر کہہ دیتے ہیں یہ مجھ سے زدہ ذہین ہے .
نہیں دوست بات ایسی نہیں. وہ آپ سے زادہ ذہین نہیں۔ کلیہ غلط لگا دیا آپ نے . جس دن آپ نے پڑھا تھا
لا الہٰ ال لال لا محممد رسول اللہ
اُس دن سے آپ آپ نہیں رہے . آپ کی ذات کا ملک آپ نے خد کو نہیں رکھا . اب فیصلے آپ كے نہیں چلنے . اب مرضی آپکی نہیں مانی جائے گی . ملازم ہو کر مالک پر بھروسہ چھوڑ بیٹھے ہو آپ . دیکھو اُس دوست کے روز مرا نظام میں کیا ایسا ہے جو آپ سے مختلف ہے.غور کرو۔
دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے وہ صبح اٹھتا ہے نماز پڑھتا ہے ، ورزش بھی کرتا ہے ، اچھے سے ناشتہ کرتا ہے لیب جاتاہے 8 گھنٹے ادھر گزار کر گھر اتا ہے . گھر آ کر اپنی پسند کی سرگرمیاں کرتا ہے . ٹی وی دیکھتا ہے . نیوز سنتا ہے . پورا دن نمازوں کی پابندی کرتا ہے . اور جب دعا کرتا ہے تو یہ نہیں کہتا کے اللہ میں بہت محنت کرتا ہوں صلہ دے . بلکہ اللہ کے حضور کہتا ہے کے مالک محنت کرنا میرا کام تھا صلہ دینا تیرا کام ہے تو جس حال میں رکھے میں خوش ہوں .
کتنا فرق ہے دونوں بندوں میں. دونوں کی منزل ایک ہے لیکن طریقہ جدا جدا . ایک كے راستے میں پریشانیاں ہیں ایک کے راستے میں ان دیکھی آسانیاں۔
دوسری طرف آپ ہیں جو اگر دو بندوں کے بیچ بیٹھ جائیں تو زبان شکوے سے نھی تھکتی۔ خد تو مایوس ہیں ہی اپنے حلقے میں بھی مایوسی پھیلاتے ہیں۔
آپ عمل کر کے تو دیکھیں۔ اپنی زندگی میں پریشان ایمپلفای کرنا بند کریں۔ اس بات سے انکار نھی کے انسان پر پریشانی اتی ہے۔ اس میں انسان کا اختیار کم ہے۔مگر پریشانی کو بوسٹ نہ کرنا تو آپکا اختیار تھا۔ آپ نے اسکو غلط طریقے سے کاؤنٹر کر کے مزید بڑھا دیا۔
بس خد سے وعدہ کر لیں کے نہ اللہ کی ذات سے مایوس ہوں گے اور نہ مایوسی پھیلائیں گے۔ پڑھائی نوکری دنیاوی کام یہ سب ضرور کریں لیکن نتیجہ اُس پر چھوڑیں جس نے پیدا کیا ہے۔ متوازن زندگی گزاریں۔ کام کے وقت کام کریں۔
یہ باتیں تو تھی مسلمان کے لیے جو اللہ پر یقین رکھتا ہے . اُس کے کام کرنے کا اصل طریقہ . اگر کوئی منکر خدا ہے اور وہ پریشان ہے اپنی لائف سے تو انشاءاللہ اُس کے لیے بھی ضرور لکھوں گا کے اس کے کلیہ میں کیا غلطی ہے۔
آپ اگر طلبعلم ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
“ کامیابی دینے والی ذات اللہ کی ہی ہے . میری محنت دنیاوی چیزوں میں مجھے کامیاب نہیں کرا سکتی . ضروری نہیں میں سارا دن دنیاوی کام كے لیے محنت کروں اور اللہ کامیابی بھی دے . لیکن اس بات کی ضمانت اللہ نے ضرور دی ہے كے دینی کام میں محنت کرو گے کامیابی ضرور ملے گی دنیا اور آخرت دونوں میں”
تو آپ کبھی پریشان نھی ہوں گے۔ جیسے کوئی نماز پڑھتا ہے دِل لگا کر تو اسے دنیا میں بھی اطمینان قلب ملتا ہے اور آخرت میں بھی درجات بلند ہوں گے .
تو اگر دنیاوی علم کا طالب ہو کر آپ سارا دن اسی فکر میں لگے رہتے ہیں كے جتنی زیادہ محنت کروں گا اتنی کامیابی ملے گی تو آپ غلطی پر ہیں . آپ غور کر کے دیکھیں اپنے دوستو میں نظر ڈالیں آپکو ایسے لوگ نظر آئیں گے جو کام آپ سے کم کرتے ہیں لیکن ان كے کام میں برکت بہت زدہ ہوتی ہے۔
آپ اگر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں تو شاید آپکو پی ایچ ڈی ٹاپک اتنی جلدی نا مل سکے باوجود اسکے كے آپ سارا دن لیب میں گزارتے ہیں پروفیسر سے ملتے ہیں ٹینشن لیتے ہیں ناکامی کی. گھر واپس آ کر بھی بس كھانا کھایا اور پھر لیپ ٹاپ کھول كے بیٹھ گئے کے شاید مزید ڈھونڈھنے سے کوئی اچھا ٹاپک مل جائے . سارا سارا دن ساری ساری رات گوگل پر گزار دیتے ہیں. نا نماز کا خیال اتا نا اپنی صحت کی فکر ہوتی نا کسی جسمانی ورزش کی طرف خیال ہے نا دوستو كے ساتھ کوئی سیر تفریح کا پروگرام بنایا.
اور آپ ہی کے سرکل میں ایک دوست ہوتا ہے جسے آپ دیکھتے ہیں آپ سے کم پڑھتا ہے آپ سے کم ٹائم لیب میں گزارتا ہے لیکن بسا اوقات پروفیسر خد کہہ دیتا ہے تم اس چز پر کام کرو اور آپ ورطہ حیرت سے اپنی زُبان دانتوں کے بیچ رکھ کر کہہ دیتے ہیں یہ مجھ سے زدہ ذہین ہے .
نہیں دوست بات ایسی نہیں. وہ آپ سے زادہ ذہین نہیں۔ کلیہ غلط لگا دیا آپ نے . جس دن آپ نے پڑھا تھا
لا الہٰ ال لال لا محممد رسول اللہ
اُس دن سے آپ آپ نہیں رہے . آپ کی ذات کا ملک آپ نے خد کو نہیں رکھا . اب فیصلے آپ كے نہیں چلنے . اب مرضی آپکی نہیں مانی جائے گی . ملازم ہو کر مالک پر بھروسہ چھوڑ بیٹھے ہو آپ . دیکھو اُس دوست کے روز مرا نظام میں کیا ایسا ہے جو آپ سے مختلف ہے.غور کرو۔
دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے وہ صبح اٹھتا ہے نماز پڑھتا ہے ، ورزش بھی کرتا ہے ، اچھے سے ناشتہ کرتا ہے لیب جاتاہے 8 گھنٹے ادھر گزار کر گھر اتا ہے . گھر آ کر اپنی پسند کی سرگرمیاں کرتا ہے . ٹی وی دیکھتا ہے . نیوز سنتا ہے . پورا دن نمازوں کی پابندی کرتا ہے . اور جب دعا کرتا ہے تو یہ نہیں کہتا کے اللہ میں بہت محنت کرتا ہوں صلہ دے . بلکہ اللہ کے حضور کہتا ہے کے مالک محنت کرنا میرا کام تھا صلہ دینا تیرا کام ہے تو جس حال میں رکھے میں خوش ہوں .
کتنا فرق ہے دونوں بندوں میں. دونوں کی منزل ایک ہے لیکن طریقہ جدا جدا . ایک كے راستے میں پریشانیاں ہیں ایک کے راستے میں ان دیکھی آسانیاں۔
دوسری طرف آپ ہیں جو اگر دو بندوں کے بیچ بیٹھ جائیں تو زبان شکوے سے نھی تھکتی۔ خد تو مایوس ہیں ہی اپنے حلقے میں بھی مایوسی پھیلاتے ہیں۔
آپ عمل کر کے تو دیکھیں۔ اپنی زندگی میں پریشان ایمپلفای کرنا بند کریں۔ اس بات سے انکار نھی کے انسان پر پریشانی اتی ہے۔ اس میں انسان کا اختیار کم ہے۔مگر پریشانی کو بوسٹ نہ کرنا تو آپکا اختیار تھا۔ آپ نے اسکو غلط طریقے سے کاؤنٹر کر کے مزید بڑھا دیا۔
بس خد سے وعدہ کر لیں کے نہ اللہ کی ذات سے مایوس ہوں گے اور نہ مایوسی پھیلائیں گے۔ پڑھائی نوکری دنیاوی کام یہ سب ضرور کریں لیکن نتیجہ اُس پر چھوڑیں جس نے پیدا کیا ہے۔ متوازن زندگی گزاریں۔ کام کے وقت کام کریں۔
یہ باتیں تو تھی مسلمان کے لیے جو اللہ پر یقین رکھتا ہے . اُس کے کام کرنے کا اصل طریقہ . اگر کوئی منکر خدا ہے اور وہ پریشان ہے اپنی لائف سے تو انشاءاللہ اُس کے لیے بھی ضرور لکھوں گا کے اس کے کلیہ میں کیا غلطی ہے۔
مصنف۔
حمزہ احمد رضا
Comments
Post a Comment