یقین کامل
زندگی میں مایوسی سی بچانے والی جہاں بےپناہ چیزیں ہیں وہاں ایک اللہ کی طرف سے معجزہ ہونے پر یقین رکھنا ہے۔ بلکہ یوں کہیں خالی یقین نہیں یقین کامل ہونا ہے۔
انسان محنتی ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کبھی نتائج اچھے ملتے ہیں کبھی ناکامی ہوتی ہے۔ یہ نارمل عمل ہے۔ مایوسی وہاں اتی ہے جب انسان ہر محنت کے عوض صرف کامیابی ہی فرض کر لیتا ہے۔
حالاں کہ ہماری ناکامی جہاں ایک طرف ہمیں سبق دیتی ہے وہیں دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زندگی میں اگر دوسروں کی مثالیں نہ ہوں تو شاید انسان کے لیے سیکھنے کا عمل بہت سُست ہو جائے۔
جب بھی کسی کام کو کرنے کا خیال اتا ہے تو انسان اس کے اچھے برے نتائج سوچتا ہے۔ کس نے کیسے اس کام کو کرنے کی کوشش کی وہ کیوں ناکام ہوا یا اُسے کیوں فائدہ ہوا۔ یہ سب تجربے ہمیں سیکھنے کا موقع اور کامیاب ہونے کا ہنر بتاتے ہیں۔
جب زندگی میں سب اچھا چلنے لگے تو انسان کی زبان پر شکر کا ترانہ بنا چاہئے۔ اور ناکامی کی صورت میں توکل کا۔
یہ بڑا اہم موڑ ہے۔ ناکامی کی صورت میں اگر زبان پر شکوے آ گئے کے میں نے تو محنت کی تھی پتہ نھی کیوں نھی کاروبار چلا، پتہ نہیں کیوں نہیں اللہ میں کامیابی دی، بس یوں سمجھ لیں کے دروازے ناکامی سے بند نھی ہوئے تھے بلکہ اب شکوے سے بند ہو گئے۔
کیوں کے شکوے کرنے والا کبھی اپنے لیے بند راستے نھی کھول سکتا۔ وہ اسی دلدل میں پھس جاتا ہے۔ ناکامی میں اُمید کی جو کرن تھی وہ شکوے کر کے خود کو مایوس کر کے، بند کردی۔ جب اُمید ہی توڑ دی، جب پانی میں دیا نہ جلنے کا اصول تسلیم کر ڈالا، جب ہوا میں دیا بجھنے کو مان ڈالا، جب اسباب کو فتح کی نشانی سمجھا، جب محنت کو ہی منزل کی چمک سمجھا، تو اب اسباب کا راستہ بند دکھنے پر ناکامی کی دلدل کھینچ لے گی۔ اب تو آگے بڑھنے کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں باندھ ڈالے۔
ایسے میں اگر یقین کی دولت رکھی ہوتی۔ اللہ کے معجزے پر یقین رکھا ہوتا تو پرندے ضرور تیرے راستے کی رکاوٹوں پر پتھر مارتے، ضرور فرشتے مدد کو آتے۔
حضرت ابراہیم کو آگ سے بچایا اس رب نے۔ایمان کامل ہو تب ہی آگ ٹھندی ہوا کرتی ہے۔ زبان پر شکوہ ہو دل بے ایمان ہو تو ہزار کے لشکر بھی تین سو تیرہ سے مار کھا جایا کرتے ہیں۔
وہ موسیٰ کے لیے دریا میں راستے بنانے والا رب ہے۔ وہی موسیٰ جنکی پیدائش ایسے وقت میں ہوتی ہے جب اولاد میں سے لڑکوں کو بادشاہ وقت قتل کرواتا ہے۔ ایسے سخت ظلم کے ماحول میں اللہ نے اسی جابر فرعون کے گھر میں ہی موسیٰ کو زندہ رکھا۔ اور جب ایک طرف اللہ پر بھروسہ رکھ کے پانی سے رستہ بنوانے جا رہے تھے دوسری طرف وہی دریا ایک بےایمان کو، ایک یقین کی دولت سے محروم شخص کو اپنے اندر سے گزرنے نھی دیتا۔ اللہ ایسے معجزے دکھایا کرتا ہے۔
حضرت یوسف کی مثال لے لیں۔ کیسے کنوئیں میں گرے پھر اللہ نے سہارا دلوایا، مصر کے بازاروں میں بکے پھر بادشاہ کے محل میں پہنچے اور قید ہو گئے۔ پھر اسی تخت پر اللہ نے تخت نشین کر دیا۔ کبھی اس نظریے سے پڑھا ہے اس مثال کو۔ عقل نے تو کہا تھا کے کنوئیں میں گرا دیے گئے ہیں اب نھی کوئی سہارا کے بچ سکیں۔ جب بادشاہ کے قیدی بنے تو بھی کوئی خیر کی توقع نہیں۔
یہ تو چند مثالیں ہیں۔ دنیا کے ہر کامیاب انسان کی مثال دیکھیں۔ ہے صفت مشترکہ نظر ائے گی۔ کوئی ایسا کامیاب انسان ایسا نھی ملے گا جو مایوسی کے ڈر سے ہمت ہار گیا ہو۔
Comments
Post a Comment