رسول اللہ سے تعلق جوڑنے کی حقیقت
ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ خود کو کنیکٹ کرے لیکن اس کنکشن کے اس تعلق کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں۔ ائیے اس پر بات کرتے ہیں۔کچھ طریقے تو نہایت اسان ہیں اور اپ وائزین کی مقررین کی تقریروں میں اکثر ہی ان کا تذکرہ سنتے ہیں۔ بلکہ اگر میں یہ اکثر کا ورڈ ہٹا دوں اور کہوں کہ صرف انہی طریقوں کا تذکرہ سنتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
وہ طریقے یہ ہیں کہ اللہ کے نبی جیسی صورت بنا لیجیے داڑھی رکھ لیجیے شلوار قمیض پہن لیجئے جیسے اللہ کے نبی چلتے تھے ویسے چلنا شروع کر دیجیے جیسے اللہ کے نبی کھاتے تھے ویسے کھانا شروع کر دیجیے جیسے اللہ کے نبی دھیمے مزاج سے بولتے تھے ویسے بولنا شروع کر دیجیے جیسے وہ ہنستے تھے ویسے ہنسنا شروع کر دیجیے یعنی کہ ان کی ہر ہر سنت کو اپنا لیجیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کے نبی کی سنت کے اندر صرف یہی طریقہ شامل ہیں۔
کیا کبھی اپ کو کسی نے یہ بتایا کہ اللہ کے نبی کی بات کرنے کی صلاحیت اور پریزنٹیشن سکلز بہترین تھیں۔ چاہے کسی بادشاہ سے بات کرنی ہو کسی ملک کے سفیر سے بات کرنی ہو یا اپنے کسی غریب صحابی سے بات کرنی ہے اللہ کے نبی کبھی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے تھے۔ پر اعتماد ہو کر لوجک کے ساتھ دلائل کے ساتھ بات کیا کرتے تھے۔ اس لیے اگر اپ بھی اللہ کے نبی کی زندگی کے مطابق چلنا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی میں اپنی پریزنٹیشن سکل اپنی کنونسنگ پاور پہ کام کیجئے۔ سیکھیے کہ کس طرح سے اپ ایک اچھی گفتگو کر سکتے ہیں کس طرح اپ لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
غزوہ حنین کے موقع پہ جب اللہ کے نبی نے مال غنیمت تقسیم کیا تو کچھ صحابہ کی ناراضگی سامنے ائی۔ انہیں لگا کہ مکہ کے جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے انہیں اللہ کے نبی نے شاید زیادہ مال تقسیم کر دیا ہے۔ اللہ کے نبی اگر چاہتے تو اس سچویشن پر صرف ایک رائے دیتے کہ یہ میرا فیصلہ ہے اور اس کو مانو اور سب لوگ یقینا اس بات کو تسلیم کر لیتے۔ لیکن اپ نے کیا جملہ فرمایا اپ نے کہا کہ انصار کیا تم اس بات پہ خوش نہیں ہو کہ یہ لوگ تو بھیڑ بکریاں لے کے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کے جاؤ۔ کتنا حکمت بھرا جملہ تھا جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔ یہ ظاہر کرتا ہے ضروری نہیں کہ اگر اپ پاور فل ہیں اگر اپ لیڈر ہیں تو اپ نے اپنی رائے کو فورس فلی منوانا ہے۔ بلکہ ایک لیڈر کا تو کام یہ ہے کہ وہ سب لوگوں کو ساتھ لے کے چلیں اور کیا ہی پیاری بات اللہ کے نبی نے ہمیں سکھائی کہ حکمت سے بات کرنا سیکھو۔
اللہ کے نبی ثابت قدم تھے مشکل سے مشکل وقت میں بھی ڈٹے رہتے تھے۔ ایسا دنیاوی امور میں بھی تھا اور دینی امور میں بھی تھا۔ غزوہ احد میں جب اچانک سے حملہ ہوا تو اپ کے ساتھ صرف کچھ صحابہ تھے۔ غزوہ حنین کے موقع پہ جب اچانک سے یلغار ہوئی تب بھی اللہ کے نبی کچھ صحابہ کے ساتھ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ اسی طرح دنیاوی امور میں اپ دیکھیں جب ایک صاحبزادی کو اونٹ سے گرا دیا گیا ایک زوجہ پر تہمت لگائی گئی اسی طرح حضرت خدیجہ کا دنیا سے جانا حضرت حمزہ کا دنیا سے جانا جس کو اپ نے عام الحزن غم کا سال قرار دے دیا لیکن اپ کا حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ اپ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ جبکہ اج کل ہمارا کیا حال ہے کہ ایک پلان کرتے ہیں ایک کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ذرا سی مزاحمت اتی ہے دل چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ کنسسٹنٹ ہو کر کوئی کام نہیں کر پاتے اپنا ایک مقصد بناتے ہیں لیکن اگر حالات ہمارے مطابق نہ ہوں تو اس مقصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ ثابت قدمی اگر ہم سنت سے سیکھیں تو کیا ہم اللہ کے نبی کے قریب نہیں ہو سکتے۔
اللہ کے نبی کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت یعنی کہ ڈیسیژن پاور بہت مضبوط تھی۔ اگر اپ نے بھی اللہ کے نبی کی زندگی کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو اپنی ڈیسیژن پاور پر کام کریں اس کو مضبوط کریں۔ اپنی زندگی میں چھوٹے بڑے فیصلے خود کرنا شروع کیجئے۔
ضروری نہیں کہ اپ میری باتوں سے اتفاق کریں۔ کیونکہ نئ بات کو سننا اس پر غور کرنا یقینا مشکل ہوتا ہے لیکن جب بات سمجھ میں ا جاے تو فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
Comments
Post a Comment