‎آخر ‏کون ‏افضل ہے

دنیا اس وقت سوچ رہی ہے کے زمین کے علاوہ بھی کسی اور سیارے پر زندگی بسائی جائے۔ انسان کی موت کا علاج دھنڈھنے پر میڈیکل سائنس دِن رات کوشاں ہے۔
اور ہم پاکستانی عوام ابھی تک اس کمپلیکس سے نھی نکل پائی کے مرد زیادہ عظمت والا ہے یا عورت۔ اس پر بحث زیادہ تر وہ لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو دنیاوی تعلیم میں تو پیک پر ہوتے ہیں لیکن خود قرآن کو نھی سمجھتے۔ نہ احادیث مبارک سے خود استفادہ کرتے ہیں۔ بلکہ اُنہیں جس عالم کی بات طبیت کے مطابق لگتی ہے اس کو اپنے لیے دلیل مان لیتے ہیں۔

اگر ایک لڑکی یہ یقین رکھتی ہے کے وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے اور خود کو مرد کے برابر یا اس سے بہتر سمجھتی ہے تو اسکے سامنے مرد اگر سورہ بقرہ کی آیت 228 لے ائے اور کہے کے مرد سپیریئر ہے تو لڑکی نومان علی خان جیسے اسکالر کا موقف پیش کرتے ہوئے کہتی ہے کے دیکھو یہ آیت تو طلاق کے بارے میں ہیں۔ 

پھر جب جواب میں لڑکی کہتی ہے کے اللہ کے نبی نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا کے کوئی کسی سے بر تر نھی رنگ نسل کی بنیاد پر۔ تو مرد خود کو کیوں سمجھتا ہے فضیلت والا تو لڑکا آگے سے وہ احادیث سناتا ہے جس میں اللہ کے نبی نے فرمایا کے اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو کہتا اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اور ایک آیت مبارکہ جس میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر رکھی گئی۔ 

اب اگر دیکھا جائے تو بظاھر دونوں موقف ہی قرآن سے ہیں احادیث کے مطابق ہیں۔ پھر کس کو اپنایا جائے۔ تو اسکا سیدھا سا حل ہے کے بجائے کسی اسکالر کے، خود دِن میں تھوڑا سا ٹائم قرآن حدیث سیکھنے پر لگایا جائے اور پھر اپنے ذہن کے مطابق فیصلہ دیا جائے۔ اپنی سوچ کے مطابق والے اسکالر کی بات سن کر موقف بنا لینا زیادتی ہے۔ علماء کی رائے ضرور لیں۔ شریعت کے احکام ضرور سیکھیں۔ ساتھ ساتھ حکمت کے ساتھ غوروفکر بھی کریں۔
میری رائے کے مطابق پہلے آپکو فیصلہ کرنا ہے کے اگر تو آپ ویسٹ کے فیملی کلچر سے متاثر ہیں تو اسلام کے کندھے پر بندوق رکھ کر مت چلائیں۔ پہلے طے کریں کے اسلام کے مطابق مرد عورت کے رول کو سمجھنا ہے يا مغربی ذہن سے۔

اسلام نے کسی انسان کو حقوق دے کر بر تر نھی کیا۔ یہ نھی کہا کے مرد افضل ہے بس عورت اُسکی غلام بن جائے۔ بلکہ رشتوں کے اندر تقسیم رکھی ہے۔ باپ کا رتبہ بیٹی سے بڑا ہے۔ ماں کا رتبہ بیٹوں سے بڑا ہے۔ اولاد کو کہا ماں باپ کو اُف تک نہ کہو۔ اسکا مطلب یہ نہیں کے باپ بیٹی پر فضیلت سمجھ کر اس پر حکومت کرے۔ ماں کو یہ حق نہیں کے بیٹے کی زندگی پر شریعت کے دائرے سے نکل کر حکم جمائے۔ اولاد اس بات کی پابند نہیں کے خلاف شریعت بات پر بھی ماں باپ کو اف نہ کہے۔ 
ان رشتوں میں اللہ نے حساسیت رکھی ہے۔ ایک دوسرے کو کم تر سمجھے بنا ایک دوسرے پر رعب و دبدبہ رکھے بنا ان رشتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا پابند کیا ہے۔

 حضور نے ایک شوہر کے طور پر اپنی زوجہ حضرت عائشہ (ہماری ماں) کے ساتھ حسن سلوک کا رشتا نبھایا۔ مزاح بھی فرمایا۔ اور جہاں رہنمائی فرمانا چاہی وہاں سخت الفاظ بھی استعمال کیے۔ اُنکے جھوٹے کپ میں پانی پیا۔ بھری محفل میں حضرت ابو بکر نے پوچھا کے یا رسول اللہ اپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ آپ نے وہیں فرمایا عائشہ۔ اسکے ساتھ ساتھ گھر کے معاملات میں انکی رائے لی۔ مشورہ لیا۔ اُنکے بات کو اہمیت دی۔ حضور کے اس محبت بھرے رویے کو حضرت عائشہ نے انجوئے کیا۔ ایک بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر سے شکوہ بھی کیے۔
 لیکن تاریخ میں کہیں آپکو یہ نھی ملے گا کے حضرت عائشہ نے حضور کے کسی فیصلے کو چیلنج کیا ہو۔ گھریلو زندگی کے کسی معاملے پر حضرت عائشہ نے اپنی بات بر تر رکھی ھو اور حضور کو تکلیف پہنچائی ہو۔ 
حضور نے اپنے عمل سے ثابت کیا کے بی وی کے روپ میں عورت کوئی دبا کے رکھنے والی چیز نہیں ہے۔ حضرت عائشہ نے اپنے عمل سے امت کو یہ بتایا کے اسلام کے فیملی سسٹم میں جب مرد اس بات کو یقینی بناتا ہے کے وہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کرے تو عورت کے لیے بھی بہتر ہے کے مرد کے ہاتھ میں اختیار دے۔ 
اسی طرح حضور نے حضرت فاطمہ کے ساتھ جو رویہ رکھا وہ باپ بیٹی کے تعلق کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے۔ انکی شادی کا فیصلہ کرنا چاہا تو پہلے مرضی پوچی۔ اور بیٹی نے بھی شفیق باپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر رکھا۔ ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے بچے پسند کی شادی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور مرد اپنی اولاد کا خالہ پھوپھو چاچے کے ہاں رشتے کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔۔ مرد خود تو شوہر کے، باپ کے، روپ میں فلاپ ہوتا ہے اور توقع کرتا ہے کے عورت میری ماتحت بن کر رہے۔ دوسری طرف عورت اپنی ذاتی خواہشات کے پیچھے اچھے شوہر اور اچھے باپ کی تذلیل کرتی پھرتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کے اگر تو آپ اسلام کے فیملی سسٹم کو اپنانا چاہتے ہیں تب ہی یہ باتیں آپکے لیے قابلِ سمجھ ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سسٹم میں عورت کا نان موقف مرد کی ذمےداری ہے۔ یعنی عورت اس معاشی پریشانی سے آزاد کر دی گئی ہے۔ جب کے ویسٹ میں عورت کو معاشرے میں مرد کے برابر کہہ کے اُسے بھی ہر وہ کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جو مرد کرتا ہے۔ اسلام نے معاشی ٹینشن مرد کے ذمے ڈال کر عورت کو گھر کا منتظم بنایا۔ اولاد کی پرورش کا فرض دیا۔ کیوں کے مرد آدھا دِن باہر ہو گا تو عورت بچوں کی کیئر کرے گی۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں آ کر مرد عورت کی بحث پڑتی ہے۔ خواتین کو ویسٹ کلچر نے سکھایا کے عورت بھی باہر نکلے کیوں کے وہ برابر ہے۔جبکہ اسلامی فیملی سسٹم چاہنے والے لوگ سمجھتے ہیں کے یہ نظریہ اسلام کے فیملی سسٹم سے ٹکراتا ہے۔ اب مرد عورت اپنے موقف کو سچ ثابت کرتی آیات اور احادیث کا سہارا لیتے ہیں۔ اور نتیجہ صفر۔
اس لیے اگر کوئی آپ سے اس موضوع پر بات کرے تو بحث کرنے کی بجائے پہلے یہ دریافت کر لیں کے وہ مغرب کے خاندانی نظام کے حامی ہیں یہ اسلامی خاندانی نظام کے۔ اگر تو وہ مغربی نظام کو اچھا سمجھتے ہیں تو بحث کی بجائے کنارا کر لیں۔ اور اگر وہ اسلامی خاندانی نظام کے حامی ہیں لیکن خواتین کے حقوق کے چکر میں تھوڑا لبرل ہو گئے ہیں تو اُنھیں پیار سے سمجھائیں کے اسلام تو عورت کو بیٹی کے روپ میں رحمت اور ماں کے روپ میں جنت کہتا ہے۔ اور حُسنِ سلوک کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا کچھ غیر تربیت یافتہ افراد کے خواتین سے بدتمیزی کرنے کو آپ مذہب سے جوڑ کر اسلام سے دوری اختیار مت کریں۔ 



Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل