ریاست عوام اور رویے
کہا جاتا ہے کے ایک وقت تھا جب ایک قبیلے سے کوئی شخص مہمان بن کر دوسرے قبیلے میں قیام پذیر ہوتا تو مہمان
نوازی کا یہ عالم تھا کے مہمان اگر مجرم بھی ہو تو اسے واپس اپنے قبیلے کے حوالے نھی کیا جاتا تھا۔ اپنے پاس ٹھہرے مہمان کے لیے لوگ دوسرے قبیلوں سے ٹکر جایا کرتے تھے۔ جسکی ایک شکل ارتغل ڈرامے میں دیکھنے کو ملی۔ جب حلیمہ سلطان کو تحفظ دینے اُرتغل کے والد سلیمان شاہ نے جنگ کا اعلان کردیا۔
اور ایک اج کا دور ہے کے ریاست اپنے ہی شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے حقوق مانگنے سے بات شروع ہو کر علحیدگی پسند تحریکوں میں بدل جاتا کرتی ہے۔ ظاہر ہے ریاست جب بحیثیت ماں اپنے بچوں کے تحفظ میں ناکام ہو جائے تو اولاد کے رویے بھی بدل جاتا کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی شک نھی کے پاکستان میں اٹھنے والی ہر تحریک کو جنم دینے والی چیز ہمارے ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ جس دن ریاستی ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اپنے کام کرنے لگ گئے اس دِن عوام کے اندر سے احساس محرومی ختم ہو جائے گا۔
لکھنے کو تو اس نکتہ پر بہت سی باتیں ہیں۔ احساس محرومی اور حقوق کی پامالیوں کا احوال بہت لمبا ہے۔ مگر میرا موضوع حالیہ دنوں میں ہونے والی خواتین کی تحریک سے ہے۔ کافی تنقیدی باتیں لکھیں اس حوالے سے۔ کچھ دوستوں کی ناراضگی بھی مول لی۔ وہ سوچ اپنی جگہ مگر کچھ کھری باتیں جو موقع کی مناسبت سے نہ کر سکا وہ آپکے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
میرے ملک کا زیادۃ تر مذہبی طبقہ اور کچھ ثقافتی طبقہ اس بات کا حامی ہے کے خواتین کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اور روزگار کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسکی وجہ اسلامی طرزِ زندگی اور فیملی سسٹم کی تباہی بتایا جاتا ہے۔ غیر محرم مردوں کے بیچ پڑھنا اسلامی طرزِ نھی اور اگر عورت بھی نوکری کرے تو فیملی نظام تباہ ہو جاتا ہے کیوں کے بچوں کی پرورش نھی ہو پاتی۔ دلیل کے طور پر قرآن کی کچھ آیات، پیارے آقا کی زندگی، خلفائے راشدین کے دور اور پھر صوفیاء کے اقوال کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس بات میں ذرا شک نھی کے غیر محرم کے بیچ پڑھنا پردے پر اور عورت کا نوکری کرنا بچوں کی تربیت پر اثر ڈالتا ہے
لیکن سوال یہاں یہ بنتا ہے کے اگر عورت نوکری نہ کرے اور مرد کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو کیا ریاست اس عورت کا سہارا بنے گی۔ مرد سرکاری ملازم ہو تب تو شاید حقیر سی رقم عورت کو وظیفے میں مل جاتی ہے مگر پرائیویٹ ملازم کی بیوہ کو تو ریاست کی طرف سے کچھ نھی ملتا۔ ایسے میں وہ عورت اپنے بچوں کی پرورش کے لیے محتاج بن کر رہ جاتی ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھر بھی ساس سسر کا کچھ سہارا مل جاتا ہے مگر جس کا شوہر کے علاوہ کوئی نھی تھا دنیا میں وہ تو شوہر کے مرنے کے بعد محتاج ہو گئی۔ اگر عورت پڑھی لکھی ہو تو امید پیدا ہوتی ہے کے وہ کوئی عزت کی نوکری تلاش کر لے گی۔ مگر آپ نے مذہب کے ،کلچر کے، اور عزت کے نام پر اگر اپنی بیٹی کو پڑھایا ہی نھی تو کون سہارا بنے گا اسکا؟ پاکستان میں لاکھوں ایسی بیوہ عورتیں موجود ہیں جو یہ تو محتاجی کی زندگی میں ہیں یا انکے چھوٹے بچے مانگ کر یا مزدوری کر کے پیٹ پالتے ہیں۔
ایسے میں ریاست اپنا رول ادا کرنے میں بلکل ناکام نظر اتی ہے۔ اس لیے ہر ایسے مرد کو جو مذہب،کلچر، اور عزت کے نام پر عورت کو گھر میں محدود رکھتا ہے سوچنا چاہئے کے خدا راہ اپنی خواتین کو دنیا داروں کا محتاج بنانے کی بجائے اس قابل بنائیں کے تم رہو نہ رہو وہ عزت سے زندگی گزار سکیں۔ بیشک زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے پر پاکستان میں ایسی بیوہ خواتین کی کمی نھی جو شوہر کے مرنے کے بعد عزت سے نھی جی پاتی۔ اسلام اس وقت تک کسی انسان کو کوئی کام کرنے کا نہ حکم دیتا ہے نہ کسی کام سے روکتا ہے جب تک اس کا حل نہ پیش کر دے۔ اگر حضور نے،صحابہ نے، اور صوفیاء نے عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنے کا پابند کیا تو ساتھ میں انکی حفاظت اور مرتے دم تک عزت کا وسیلہ بھی پیدا کیا۔ اسلامی حکومت کی یہ ذمےداری بنتی ہے کے وہ بیوہ ،یتیم، اور ناداروں کا خرچ اٹھائے تا کے شہری اسلامی اقتدار کو تھام سکیں۔ اگر ریاست بحیثیت اسلامی حکومت اپنی ذمےداری میں ناکام رہتی ہے تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کے وہ اسلام کے نام پر لوگوں کو غیر محفوظ کرے۔
اسلام نے اس خاندانی نظام میں عورت کو بچوں کی تربیت کی ذمےداری سونپی ہے جس میں مرد کے ذمے گھر کی معیشت ہو۔ جس میں مرد عورت اور بچوں کا نام نان نقفہ پورا کرے اور اسکے مرنے کے بعد اسلامی ریاست اسکا حق ادا کرے تا کے عورت کمانے کی فکر سے آزاد ہو کر اپنے گھر کو سنبھال سکے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست اپنی ذمےداری پوری کرنے میں ناکام ہے اور لا تعداد خواتین اور بچے مرد کے مذہبی اور غیرت مند ہونے کی سزا اسکے دنیا سے جانے کے بعد برداشت کرتے ہیں۔
اس لیے خدا را جب تک ریاست ماں ہونے کہا حق ادا نہیں کرتی ہر شہری اپنی بیٹیوں کو ہنر سکھا کر اس قابل ضرور بنائے کے آپکی خودداری کی قیمت آپکی عورت محتاجی کی صورت میں ادا نا کرے۔
نوٹ: اس تحریر کا مطلب ہر گز یہ نھی کے اگر ریاست اپنا حق ادا کرنے لگ جائے تو خواتین کو نہ تعلیم دی جائے اور نہ نوکری کی اجازت۔ اس موضوع پر پھر کبھی بات ہوگی۔
Comments
Post a Comment