سچ تو یہ ہے۔
![]() |
Haqooq ki jang es youth k sang, NA BABA NA |
کچھ دن پہلے ایک پرانے دوست عزت خان اور ثوبیہ سے ملاقات ہوئی۔سلام
دعا کے بعد گفتگو کچھ لمبی ہو گئی۔ عزت خان کا گلا خراب تھا لیکن پھر بھی مسلسل
بولتا رہا۔ثوبیہ نے پوچھا کہاں آوازیں لگا کر اے ہو تو موصوف نے فرمایا" عورت
مارچ میں گیا تھا۔خواتین کے حقوق کی آوازیں لگا لگا کر گلا اپنے حقوق سے محروم ہو
گیا ہے"
اس سے پہلے میں کچھ بولتا ثوبیہ نے پوچھ لیا
" اے میری قوم کے حقوق نسواں کے محافظ،میں لڑکی
ہو کر ایسے مارچ میں نھی جاتی تو لڑکا ہو کر کن کاموں میں لگا ہے؟"
وہ ہنستے ہوئے بولا
"بھلا تمہیں جانے کی کیا ضرورت، تم لڑکی کم لڑکا زادہ دکھتی ہو۔
تمہارا ابّا امیر آدمی ہے۔ تم خود پیسے والی۔ بھلا تمہیں کیا ضرورت حقوق مانگنے کی۔
تم تو حقوق چھیننے والوں میں سے ہو"
میں نے کہا
"اچھا تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کے عورت مارچ صرف غریبوں کے لیے ہے"
عزت خان ہنستے ہوئےبولا
"ارے نھی بھئی یہ مطلب نھی تھا میرا"
آج تو تم اپنا مطلب سمجھا ہی دو۔ میں اج نھی اٹھنے والی تمہارا موقف
سنے بنا کے آخر یہ عورت کی آزادی، عورت مارچ ہے کیا جسکے لیے تم مرد ہو کر آواز
اٹھا رہے ہو اور میں عورت ہو کر ایسی تحریکوں سے دور بھاگتی ہوں۔ اج تو یا تم مجھے
قائل کر کے اٹھو گے کے یہ عورت مارچ بہت ضروری ہیں یا میں تمہیں قائل کروں گی کے یہ
محض ایک دھوکے کا نام ہے اور عورت کو سبز باغ دکھا کر بس انتشار پھیلانے کا بہانہ
ہے۔
بس پھر کیا تھا۔ ثوبیہ کے ایسے کہنے کے بعد اُن دونوں کی گفتگو ایک
مکالمے کی صورت اختیار کر گئی۔ اور میں خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہا۔ وہی مکالمہ
آپکے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
ثوبیہ
اچھا تو پہلے تم مجھے سمجھاؤ کے یہ عورت کے حقوق کی تحریک یہ عورت
مارچ ،میرا جسم میری مرضی یہ سب فنکاریاں کیا ہیں.؟
عزت خان:
مختصراً کہوں تو یہ عورت کو انکے حقوق دلوانے کی تحریک ہے۔
ثوبیہ
اچھا کونسے حقوق ہیں جو ہم خواتین کے پاس نھی ہیں؟
عزت خان:
کیا مطلب تمہارا کونسے حقوق؛ ظاہر ہے بنیادی حقوق، جیسے عورت کو اپنی
مرضی سے کام کرنے کی آزادی،اُسکی عزت اُسکی جان کی ضمانت،اُسکی کم عمری میں شادی
نہ کرنے کی ضمانت،اسکو تیزاب گردی سے بچانے کی ضمانت، جبری ریپ سے تحفظ کی ضمانت، اسکو گھر کے اندر
محفوظ ہونے کی یقین دھانی اور سب سے بڑھ کر مرد کے برابر حقوق دینے کی گارنٹی۔ اج کل تو باپ بیٹی کا، بھائی سوتیلی بہن کا،
ماموں بھانجی کا، اور محلے والا ہمسائی کی بچی کا ریپ کر رہا ہے اور تم کہتی ہو
کون سے حقوق کون سی آزادی۔
ثوبیہ
اچھا باتیں تو تم نے سب اچھی کہی ہیں لیکن ان سب مسلوں کا حل کیا ہے
تمہارے نزدیک؟
عزت خان:
عورتوں کو آگاہی دلوا کر،اُنہیں بتا کر کے تم کسی کی پابند نھی
ہو،تمہیں خود اپنا محافظ بننا ہے، تمہیں اپنے حق کے لیے لڑنا ہے، خد کمانا ہے، کسی
کا محتاج نھی رہنا،
ثوبیہ
اچھا تو تم یہ کے رہے ہو کے عورت مارچ کا مقصد عورت کو محفوظ شہری
بنانا ہے اور ہر طرح کی زیادتی سے بچانا ہے؟
عزت خان:
بلکل ٹھیک کہا تم نے۔بس اتنی سی بات ہے جو ہم مردوں کو اور تم جیسی
عورتوں کو نھی سمجھ اتی۔ کسی نے صحیح کہا ہے کے عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن
ہے۔
ثوبیہ
اچھا جناب تو ذرا یہ بتائیں کے عورت مارچ کی پہلی تحریک کب اور کہاں
شروع ہوئی؟
عزت خان:
اتنا تو مجھے نھی پتہ پر شاید انیسویں صدی کے شروع میں یورپ میں شروع
ہوئی۔
ثوبیہ
اچھا تو یہ تحریک پہلے یورپ امریکہ میں چلی پھر امپورٹ ہو کر یہاں ائ
ہے۔ ہم پاکستانیوں کی اپنی ایجاد نھی ہے یہ؟ اور اچھا ویسے یورپ کی خواتین کو کیوں
ضرورت پیش آئی اسکی؟
عزت خان:
ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے کے یہ تحریک یہ سوچ یورپ سے امپورٹ ہوئی ہے۔
پر ایجنڈا تو ہمارا اپنا ہے۔اور بھی بہت سے کام یورپ کے جیسے ہیں جو یہاں کرتے ہیں
سب۔ اور ظاہر ہے ادھر حقوق نھی ملے ہوں گےتب ہی چلی ہوں گی نہ وہاں یہ تحریک۔
ثوبیہ:
اچھا اُدھر عورت نے خودمختاری کی تحریک چلا کر آزادی حاصل کرلی۔ ایسے
نظام سے آزادی جس نے اُنہیں گھروں تک محدود کر رکھا تھا۔اب وہ نوکری کر سکتی ہیں۔آرام
سے گھوم سکتی ہیں۔کوئی انکی مرضی کے بنا اُنہیں زیادتی کا نشانہ نھی بناتا۔
لیکن آزادی مارچ کے اور آزادی کی تحریک کا ایسا کیا اثر ہوا کے لوگ
اُنہیں کے حقوق دینے پر مجبور ہو گئے؟
عزت خان۔
یہ اچھا پوائنٹ ہے۔ وہاں ایسے اصول بنائے گئے کے کوئی عورت کو غلط
نظر سے دیکھے تو سزا، مرضی کے بنا کسی لڑکی کو سیکس کرنے پر سزا، کوئی اسی نوکری
نہ کرنے دے تو سزا، اور گھریلو جھگڑوں پر عورت پر ظلم کرنے پر سزا۔
ثوبیہ:
۔
عورت کا اور ہر شہری کا تحفظ اس وقت ممکن ہے جب ملک میں قانون عملی صورت میں نافذ
ہو جائے۔ قانون کی رٹ قائم کر دینے سے اس ملک کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ ۔مجھے
بتاؤ کون سا قانون نھی ہے عورت کے تحفظ کا اس ملک میں؟
کم عمری میں شادی پر سزا،
گھریلو تشدد پر سزا،
ریپ کرنے پر قانون میں سزا،
جبری قید پر آئین پاکستان میں سزا،
بنا مرضی کے اب تو مرد دوسری شادی نہیں کر سکتا،
تم کوئی ایسا ایکشن مجھے دیکھا دو جس میں قانون میں سزا نہ ہو ۔قانون
موجود ہیں۔
عزت خان:
کیا تم نے کبھی کسی کو ایسے کاموں پر سزا ہوتے دیکھا ہے؟
ثوبیہ:
اب آئے نہ تم اصل نکتہ پر.
یہاں عورت کے تحفظ کے قانون موجود ہیں۔ لیکن نافذ کرنے والے خود بغیرت
ہیں۔ یہاں ایم ان اے کی بیٹی سے کوئی زیادتی نھی کر سکتا کیوں کے سب جانتے ہیں کے
وہ امیر آدمی ہے اور قانون اسکے گھر کی باندی ہے۔ ریپ ہوتا ہے تو ہمیشہ غریب کی بیٹی
زینب کا۔کیوں کے اسکے ہاتھ قانون سے چھوٹے ھیں۔
یہاں کوئی سینیٹر یہ وزیر کی بیٹی پر تیزاب نھی پھینکتا کیوں کے ان
کے ہاتھ بھی قانون کی گردن پر ہیں۔ یہاں تیزاب پھینکا جاتا ہے تو غریب کی بیٹی پر
اور اسکی بیوہ ماں کو پولیس رپورٹ لکھوانے کے لیے تھانے میں ایس ایچ او کے سامنے
ناچنا پڑتا ہے۔
عزت خان:
تو تم کہنا چاہتی ہو کے اگر عورت پر ظلم ہوتا ہے تو وہ آواز تک نہ
اٹھائے؟
ثوبیہ:
بلکل نھی۔
آواز اٹھائے ضرور اٹھانی چاہئے۔
لیکن جائز طریقے سے۔ اپنی صفوں میں موجود بہروپیوں کو بھی پہچان کر
آگے بڑھے۔
عزت خان:
اچھا تو تمہیں لگتا ہے کے ان مارچ کی وجہ درست ہے لیکن تحریک کا سسٹم
اور مطالبہ کرنے کا طریقہ جائز نھی ہے؟ ایسی بات ہے تو چلو تم بتا دو کے کونسا طریقہ
صحیح ہے پھر؟
ثوبیہ:
ہاں بلکل ناجائز ہے۔ حقوق مانگنا غلط نھی۔ نہ حقوق دینے والے اس بی
کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن حقوق کے نام پر ثقافت بدلنے کا ایجنڈا غلط ہے۔ حقوق کی
بات کرنی ہے تو قانون سازی کے لیے آواز اٹھاؤ۔قانون کی عملی شکل نافذ کرنے کے لیے
آواز اٹھاو۔وکلاء کی ٹیم تیار کرو۔ سیاستدانوں کو للكارو۔ اسمبلی میں آواز اٹھاو۔
عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں وہ کیوں مجرم کو رہا کر دیتی ہیں۔ عورت کو شعور
دینے کے لئے تعلیمی نظام میں تبدیلی کرواؤ۔ مہذب طریقے سے اپنی بات عوام کو سُنا
کر اکثریت کو اپنی طرف کرو۔
عزت خان:
کیا مطلب ہے تمہارا مہذب طریقے سے؟ کیا ہم گھر مہذب ہو کر مطالبہ
مانگ رہے ہیں؟
ثوبیہ:
ہاں بلکل گھر مہذب ہو۔ تمہارے مارچ میں عورت حقوق کی بات کم کرتی ہے
اور اپنی حدوں کو توڑ کر بے لگام ہونے کی زیادہ آواز اٹھاتی ہے۔ یہ کونسے حقوق ہیں
کے اپنی محواری کے سلوگن اٹھا رکھے ہیں۔ پیغام دیا جا رہا ہے کے اپنا بستر خد گرم
کرو۔ اپنا کھانا خود گرم کرو۔ میں دوپٹہ کیوں لوں, تم آنکھیں نیچے کرو۔
یہ بیہودگی دیکھ کر کو عورت کیسے تمہارا ساتھ دے جو گھر میں رہنا
چاہتی ہے، مرد کو جس نے خوشی سے گھر کا سربراہ تسلیم کیا ہوا ہے۔ جو خاندانی نظام
چاہتی ہیں۔ جن کے نزدیک عورت کے حقوق اور عورت کی نام نہاد آزادی میں زمین آسمان
کا فرق ہے۔ وہ مرد کیسے اس تحریک کا ساتھ دیں جو پہلے ہی اپنی بیگم کو شہزادی کے
طرح رکھتے ہیں۔ انکو نوکری کرنے دیتے ہیں۔ اُن پر ظلم نھی کرتے۔ وہ اُسکی عزت کے
رکھوالے ہے۔ وہ کیسے گوارا کریں گے کے انکی عورت ایسے جلسوں میں جائے جہاں سینا
کھول کر ٹائٹ لباس پہن کر عورتیں اور کچھ بے حیا مرد یہ سلوگن دکھا رہے ہوں کے ماہواری ہے تو شرم کیسی۔
یاد رکھنا،
اگر شرم نھی تو
پھر کوئی معاشرہ نھی۔ ابھی تو میں نے تمہیں اپنے مذہب کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
اگلے نشست میں تمہیں سمجھاؤں گی کے اللہ نے مرد عورت کے لیے کن کن کاموں میں شرم
رکھی ہے۔اور عزت خان تم جیسے لوگ کہتے ہیں کے ماہواری ہے تو شرم کیسی۔ اللہ کے نبی
نے عورت کو ۱۴۰۰ سال پہلے عزت دی اُسے معاشرے کا عزت دار شہری
بنایا اور جس یورپ سے تم متاثر ہو رہے ہو اس نے عورتوں کے تحفظ کا بل انیسویں صدی
میں پاس کیا۔
کتنا اچھا ہوتا
اج کی عورت اسلام کے اُن اصولوں کے مطابق اپنا حق مانگتی۔ مجھ سمیت ہر لڑکی اس تحریک
کا حصہ بنتی۔
عزت خان:
باتیں تمہاری ٹھیک
ہیں۔ پر سچ پوچھو تو ۔مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا یہ روزگار ہے۔ این جی او کی فنڈنگ
اسی بات سے مشروط ہے کے ہم وہی بولیں جو ہمیں دیا جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment