یہ اتنا تو قابل نھی تھا
یار یہ اتنا
تو قابل نھی تھا
۔ یہ کیسے یہاں
تک پہنچ گیا۔
یہ وہ الفاظ
ہیں جو میرے ذہن میں اس وقت آئے جب میں امریکا کی کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک
رہبر کے طور پر اپنے سے ایک سال بعد انے والے طلبہ کو رہنمائی دینے کے بعد ہوٹل میں
اپنی میز پر بیٹھ کر اپنے گزرے ہوئے پورے دن کا جائزہ لے رہا تھا۔
کون سی بات
ایسی تھی جسکی ادائیگی کرنا ضروری تھی کون سے ایسے الفاظ تھے جو میری زبان سے کسی
کے لیے تکلیف کا باعث بنے ہوں گے۔ جس شخص سے جیسے برتاؤ کرنے کا حق تھا کیا وہ ادا
کیا۔ کسی کی عزت کرنے میں یہ کسی کو اہمیت دینے میں کوئی فرق تو نھی رہا۔ کیا کسی
کو اپنی ذاتی ضرورت یا صرف مستقبل میں کام پڑنے کی غرض سے تو صرف میں نے اخلاق سے
بات نہیں کی۔اور سب سے بڑھ کر جو بات میرے لیے توجہ کا مرکز رہتی ہے وُہ کسی کی دل
آزاری کا خوف ہے۔
ایک مسلمان
ہونے کے ناطے اس بات پر حقُل یقین ہے کے کامیابی ناکامی دینے والی ذات اللہ تعالیٰ
کی ہے مگر خودشناسی کا یہ عمل جسے انگریزی میں سیلف اسسمینٹ کہا جاتا ہے در اصل
میرے لیے کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس کی کمی جب تک ذات میں تھی تب تلک اپنی
کمزوریوں کوتاہیوں اور خامیوں سے نا واقفیت تھی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ کامیابی کے
لیے آپکے اندر کسی خاص صلاحیت کّے ہونے سے زیادہ ضروری، خامیوں کا نہ ہونا ہے۔ اس
لیے خود سے باتیں کرنے کہ یہ عمل اپنی کوتاہیوں کو پہچاننے کا بہترین طریقہ ہے
بجائے اس کے کہ آپکے عمل سے متاثرہ انسان آپکو سبق دے کر سمجھائے۔
جس فقرے سے
بات کا آغاز ہوا وہ ایک قریبی دوست کے ادا کیے ہوئے الفاظ کا مجموعہ ہے۔ یہ فقرہ
میرے دل میں کچھ اس طرح سے نقش کر چکا ہے کے اب ذاتی رہنما کا کردار اپنائے ہوئے
ہے۔ جب بھی میرے اندر اپنی صلاحیتوں یا اپنی طاقت پر غرور کا عنصر پیدا ہوتا ہے کے
میں بہت قابل ہوں تو یہ فقرہ ذہن میں آتا ہے کے میں تو وہ ہوں جس کے بارے میں لوگ
تو کہتے ہیں کہ یہ قابل نھی تھا پھر بھی اتنی کامیابی سمیٹے ہوئے ہے تو یہ میری
قابلیت نھی اللہ کا کرم ہے۔
ہم میں سے
ہر شخص معاشرے کی اس بیماری کا ڈسا ہوا ہے کے وہ اگر کامیابی سمیٹ رہا ہے تو حسد
کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر وہ ناکام ہو رہا ہے تو طعنہ دینے والے بےشمار ہیں۔
اگر کوئی بڑا خواب دیکھ رہا ہے جسکا حصول بظاھر نا ممکن لگتا ہے تو نا اُمیدی
پھیلانے والے اُسے بغل گیر کرنے کو ہیں۔ الغرض آپ کچھ بھی کرتے ہیں آپکو اچھا
ردِعمل دینے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور کردار کی بیماری کے شکار لوگ
زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے جو انسان اپنی حاصل کردہ چیزوں پر خوش ہونے اور شکر
کرنے کی بجائے دوسروں کے کردار اور انکی صلاحیتوں پر طنزو مزاح کے لیے اُنگلیاں
اٹھاتا رہے تو وہ کردار کا بیمار ہی کہلائے گا۔
کامیابی کے
سفر، اُسکی راہ میں انے والی رکاوٹوں اور لوگوں کے کامیاب انسان کی ذات پر تنقید
کے حوالے سے بےشمار کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اب تو سماجی رابطے کی جگہوں پر ہر طرف
مثبت روشنی پھیلاتے مقرر عام نظر اتے ہیں۔ ایسے علمی ماحول میں میری یہ تحریر بھلا
کیا حیثیت رکھتی ہے۔ مگر تنکا تنکا جھاڑو بن کر گھر کی صفائی کر سکتا ہے تو شاید
اس تحریر سے بھی کسی کو کوئی موتی ایسا مل سکتا ہے جو رہنمائی کا باعث بن جائے۔
اور سوچ میں یا دل میں اٹکا کوئی جالا اس سے اتر جائے۔
ویسے بڑا
عجیب دور ہے۔ہم نے اخلاقی بیماریوں کے نام بدل دیئے ہیں۔ غیبت کا نام ہم نے گپ شپ
رکھ دیا۔ حسد کو ہم نے تقابلی جائزہ کہہ دیا۔جھوٹ کا نام ہم نے بہانہ بنانا رکھ
دیا۔
حسد صرف یہ
نھی کے ایک جگہ کام کرنے والے دو بندہ کے درمیان مشترکہ مقصد کے حصول کے دوران ہو۔
جیسے کوئی طلبعلم دوسرے طلبعلم کے امریکا میں پڑھنے کی وجہ سے حسد کرے کے اسکو
کیوں ملا داخلہ مجھے کیوں نھی ملا جبکے میری پروفائل بھی اچھی تھی۔میرے نزدیک یہ
کردار کا حسد ہے۔ جس میں آپ کو اپنے اندر کمزوری ڈھونڈھنے کی بجائے دوسرے کی
کامیابی پر دل میں ملال آ رہا ہے۔ ایسے انسان کو خد سے شکوہ ہونا چاہئے کے میں کیا
ایسا کر رہا ہوں کے مجھے مطلوبہ نتائج نھی مل رہے۔اسکی بجائے وہ دوسرے پر رشک کر
کے اپنی قسمت کو رو کر اپنی ناکامی پر راضی ہو جاتا ہے۔
اب ہمارے
معاشرے میں حسد دو مختلف طرز زندگی گزارنے والوں کے درمیان بھی پایا جانے لگا ہے۔
جسے عادتاً حسد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کوئی خاتون ہیں اگر جنہوں نے اپنی تعلیم
بی اے کے بعد چھوڑ کر شادی کی گھر بسا لیا۔ یا کوئی مرد ہے جو اپنے کاروبار سے
منسلک ہے اور زیادہ تعلیم کبھی اسکا ہدف نھی رہا۔ ایسے لوگ جب کسی کو دیکھتے ھیں
کہ فلانا بندہ ایم بی اے کر کے اب باہر کے ملک میں بزنس اسکول میں پڑھ رہا ہے تو
وہ اسکے بارے میں منفی جملے کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں کے طرزِ زندگی
میں زمین آسمان کا فرق ہے پر اُسکی کامیابی کو دیکھ کر عادتاً حسدیہ جملے کہنا
لوگوں کی فطرت بن چکا ہے
میرے بارے
میں اپنی راۓ قائم کرنے والے دوست نے عادتاً حسد کا عملی مظاہرہ کیا۔ مگر اللہ کے
کرم سے اسکے یہ جملے میرے لیے باعثِ ترقی ثابت ہوئے۔ میرا پیغام آپکے لیے بھی یہی
ہے کے لوگوں کے منفی، دل دُکھا دینے والے، کردار اور عادت کے اس حسد کو اپنی منزل
کے حصول میں رکاوٹ مت بننے دیں۔ اور اپنا سفر جاری رکھیں۔
اور حاسدین
کو میرا پیغام یہ ہے کہ اگر آپکے دل میں کسی بھی انسان کے بارے میں کبھی یہ خیال
پیدا ہو کہ یہ اس مقام تک کیسے پہنچ گیا تو بس ایک کام ضرور کریں۔ اس شخص کی جگہ
خود کو رکھیں۔ اُسکی زندگی خود گزار کر دیکھیں۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح گھر
سے دور، ماں باپ سے بہن بھائی بی وی بچوں سے دور اپنی منزل کے حصول کے لیے وہ
زندگی گزار رہا ہے۔ آپ سماجی رابطوں کی جگہوں پر مسکراتے چہرے کے ساتھ جو تصویریں
دیکھتے ہیں اسکے پیچھے چھپے کردار کو بنانے کے لیے جو قربانی دی جا رہی ہیں وہ
تصویر سے عیاں نھی ہو سکتی۔ ٹھنڈے ماحول میں اپنے بیڈ پر بیٹھ کر چائے کا کپ ہاتھ
میں لیکر بچوں کو پیار کر کے کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہونے کے دوران موبائل پر کسی
کی تصویر دیکھ کر یہ کہنا بہت آسان ہے کے دیکھو کیسے مزے کر رہا ہے یہ بندہ باہر
کے ملک میں،مگر خود کو اس جگہ پر رکھ کر ویسا بن کر سوچنا صرف کردار کے پختہ تربیت
یافتہ لوگوں کا شیوہ ہے۔
اب فیصلہ آپ
کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے حاسد بننا ہے یا محسود۔
اللہ ہم سب
کا حامی و ناصر ہو۔
Comments
Post a Comment