کورونا کے مثبت اثرات


Depiction of a True Muslim
محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں ۔پیشے کے اعتبار سے میڈیکل کالج میں لیکچرر تھیں ۔
 انکے گھر کے ایک طرف ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا گھر تھا۔ گھر کے دوسری طرف ایک علامہ صاحب رہتے تھے۔ گھر کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک علامہ ڈاکٹر رہتے تھے۔ انہوں نے پہلے الیکٹریکل انجینرنگ میں پی ایچ ڈی کی اور پھر آٹھ سال کا درس نظامی کا کورس کیا۔ یوں یہ دنیاوی علم کے ڈاکٹر اور دینی علم کے علامہ تھے۔
ایک روز خاتون کے گھر چوری ہو گئی۔ ہم بھی اماں کے ساتھ انکے ہاں افسوس کرنے چلے گئے۔ہماری موجودگی میں ہی پہلے علامہ صاحب آئے اُنسے افسوس کرنے کے لیے۔ کچھ دیر گفتگو کی اور کہا کے بی بی اللہ پاک کی یہی مرضی تھی۔ جو ہوتا ہے اُسکی مرضی سے ہوتا ہے۔اللہ پر یقین رکھیں اور گھر پر ائتل کرسی  پھونک کر باہر جائیں تو گھر محفوظ رہتا ہے

انکے جاتے ہی ڈاکٹر صاحب آ گئے۔ وہ بھی کچھ دیر باتیں کر کے تسلّی دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اور جاتے ہوئے کہنے لگے 
آپ کے گھر کا لاک بڑی آسانی سے کھول لیا چور نے اس لیے چوری ہوئی۔ اچھے والے لاک لگوائیں۔ آپکو سیکورٹی کیمرے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ حفاظتی کام کریں دیکھیں کچھ نھی ہوگا۔
انکے جاتے ہی علامہ ڈاکٹر کی تشریف آوری ہو گئی۔ پھر وہی  تسلّی اور ہمدردی کی باتیں دوبارہ ہوئیں ۔ جس وقت وہ جانے لگے تو انہوں نے بھی کچھ ٹپس دیے۔ کہنے لگے "مصیبت اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہو سکتی ہے اور کسی غلطی کی سزا بھی۔ وہ غلطی صرف یہ نھی کے آپ اللہ کو یاد کرنے میں سست ہو گئی ہیں بلکہ ہو سکتا ہے آپ نے حفاظتی تدبیر اپنانے میں کوئی کوتاہی کی ہو۔ اس لیے اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ساتھ ساتھ گھر کے دروازے، چوکیدار، اور سیکورٹی کیمرے پر بھی توجہ دیں۔ جیسے اللہ کے نبی نے پہلے اونٹ کو باندھنے کا حکم دیا ہے اور پھر اسکو اللہ کے سپرد کرنے کی دعا کرنے کا کہا ہے۔ یہ کہا اور دین کے عالم اور سائنس کے ڈاکٹر چل دیے۔
وہ تو چلے گئے لیکن ہم سب کو جیسے حیران سا کردیا انہوں نے۔ اُنکا جواب اللہ پر یقین کی صورتحال اور دنیاوی اسباب پورے کرنے کی عملی شکل تھا۔
یہی کچھ صورتحال کورونا کو لے کر دیکھنے کو ملی۔ مذہبی انتہا پسند اسے اللہ کا عذاب کہتے رہے۔ کسی نے کہا کے مولا علی کا نام لینے والے کو کیا کورونا ہو گا۔ کسی نے کہا ہم کورونا کی وجہ سے مسجد بند نہیں کریں گے۔ کسی عالم نے کہا ہم تو اجتماع کر کے رہیں گے اگر کسی کو کورونا ہوا اجتماع میں تو ہمیں پھانسی دے دیں۔ ایک صاحب تو شدّت جذبات میں ایک دربار پر جالی چاٹ کر بتا رہے تھے کے کورونا بزرگوں کی جالی سے نھی لگ سکتا۔ یاد رہے اس جالی کو صبح شام زائرین ہاتھ لگاتے اور چومتے ہیں۔ الغرض کورونا کو یہودی سازش قرار دے کر حفاظتی تدابیر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ لیکن یہ سب مذہبی حضرات کورونا کے علاج کے لیے انہی یہودیوں کی خبر کے منتظر ہیں۔ تاریخ میں لکھا گیا کے جب مصیبت ائی تو نہ ایران اہل تشیع نظریات والا ملک اس بیماری سے بچا۔نہ سنی اکثریت والا کوئی ملک ایسا رہا جہاں کورونا نہ پھیلا۔ حتٰی کہ اولیاء اللہ کے مزاروں اور درباروں سے دنیاوی شفا مانگنے والوں اور خود کو پیر فقیر اور ہر بیماری کی شفا دینے کا دعویٰ کرنے والوں کی بھی دال نہ گلی کیوں کے کسی قبر سے کورونا کی ویکسین نہ ملی۔ میں اولیاء اللہ کے مرتبے کا قائل ہوں اور اُنکا ادب کرنے والا ہوں۔ پر بدقسمتی سے ہماری جہالت نے ہمیں اولیاء کا اصل مرتبہ بھلا دیا ہے اور لوگوں کے نزدیک ولی صرف وہی بن کے رہ گیا ہے جو ڈھونگ نچا کر اُنہیں خوش کر سکے۔
دوسری طرف ان لوگوں نے بھی اپنی خوب بھرکاس نکالی جو کسی موقع پر مذہب کو بدنام کرنے کہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ کسی نے کہا کے دیکھو ایک بیماری نے کیسے اللہ کا گھر خالی کردیا۔ اب کہاں ہے وہ رب۔ کسی نے کہا کے اب کہاں ہے مذہبی لوگ جو دعاؤں سے علاج کرواتے ہیں۔ اب تو سب مولوی انگریزی علم کے محتاج ہوئے پڑے ہیں۔ الغرض سائنس کو برتر ثابت کرنے کے لیے مذہب کی خوب ٹرولنگ کی گئی۔

میں سمجھتا ہوں کے یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ یہ دونوں رویے اس ڈاکٹر اور علامہ والے ہے جو خاتون کے گھر چوری کا افسوس کرنے اے۔ جس میں سے ہر ایک نے اپنی دکانداری کی۔ جب کے اصل رویہ وہ ہونا چاہئے جو علامہ ڈاکٹر کا تھا۔ لوگوں کو بتانا چاہئے تھا کے اللہ کی نہ فرمانی نے اس آفت کو دنیا پر مسلط کیا ہے لیکن اسکے علاج کے لیے ہمیں اللہ کے حکم کے مطابق غورو فکر کر کے دوائی بنانی ہے۔ 

کورونا ہمیں بتا رہا ہے کے ہم پاکستانی قوم دنیا کے لیے ابھی کسی قیمت کے نھی ہیں۔ ہمارے پاس ایسی وباؤں سے لڑنے کا کوئی سامان نھی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم تقسیم شدہ جذباتی قوم ہیں۔ جب ہم مذہب کے لبادے میں خود کو کور کر لیتے ہیں اور بس اللہ سے دعا کر کے ہے وبا کا حل مانگتے ہیں تو اللہ علاج ضرور دیتا ہے مگر دوسری قوموں کا محتاج بنا کر۔ وہ اُسکی کائنات کے خفیہ راز سے پردہ اٹھاتے ہیں اور دنیا پر علم کی بدولت راج کرتے ہیں جب کے ہم مذہبی جذبات میں سائنسی تحقیات سے دور رہ کر محتاج قوم بنے ہوئے ہیں۔

کورونا ہمیں بتا رہا ہے کے پاکستان کی بنیاد تو مذہب کے نام پر رکھ دی گئی لیکن اس کو تعمیر کرنا ہے تو دنیاوی علم میں بھی کمال حاصل کرنا ہو گا۔ 

اسکے لیے ضروری ہے کے قوم کے صرف علامہ کو شعور دیا جائے کے اپنے اندر خالی علامہ پیدا کرنے کی بجائے علامہ ڈاکٹر پیدا کریں۔ جو لاجک سے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جنکے اندر خدا پر بھروسہ رکھ کر سائنس پڑھنے کا جذبہ ہو۔ تا کے جب کورونا جیسی آفت اے تو وہ قوم کو اللہ سے معافی مانگنے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے دوائی بھی بنا سکیں تا کے ہم باقی قوموں کی محتاجی سے نکلیں۔
 اسکے ساتھ ساتھ قوم کے صرف ڈاکٹرز کو یہ بتایا جائے کے اس ملک کی  بنیاد مذہب کے نام پر ہوئی ہے۔ کورونا جیسی آفات میں مذہب کو ٹرول کر کے لوگوں کے  جذبات مزید نہ اُبھارے جائیں۔ مذہب جس ملک کی بنیاد میں ہو اس ملک میں مذہب کو ٹرول کر کے اُسکی بنیاد کو ہلانے سے بہتر ہے کے شدّت جذبات کو کم کرنے کے لیے کوشش کی جائے۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل