میرے شہر کے لوگ۔
کچھ دنوں سے عورت مارچ پر بہت بحث سننے
کو ملی۔ کچھ حضرات اس حد تک عورت مارچ کے مخالف دکھائی دیے کے اُنہیں ہر عمل میں بیرونی
سازش دکھائی دی۔ عورت مارچ بےپردگی اور بے حیائی مارچ نظر آئے ، اپنی ثقافت کھو دینے
کا ڈر انکو کھائے جانے لگا۔
کچھ لوگ اس حد تک عورت مارچ کے حامی
نظر اے کے اُنہیں عورت کے ہر پروبلم کا ذمےدار معاشرے کا مرد اور اسکا حل صرف عورت
مارچ میں نظر آنے لگا۔ وہ قانون کی کمزرویوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور عورت کی
محرومیوں کو قانون سازی کی بجائے ایسی تحریک سے حل کرنا چاہنے لگے۔
کچھ لوگوں نے اس بارے میں خود کو نیوٹرل
رکھا۔ وہ کسی بحث میں نھی پڑنا چاہتے۔ انکے نزدیک بس اپنی عورت کو اخلاق سے ڈیل
کرنا اور اپنے گھر کی عورت کو سارے حقوق دینا ہی کافی ہے۔
ایسے سب نظریے دیکھنے کے بعد میں نے بھی
سوچا کے معاشرے کے اس بدلتے رنگ و حال میں اپنا پارٹ پلے کیا جائے۔ میرا مقصد کسی
بھی طرح کی کیٹیگری کے لوگوں کی سپورٹ کرنا یا تنقید کرنا نھی۔ کیوں کے اگر ہر
طبقہ اپنے طریقے سے اپنی سوچ سے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے تو یہ اسکا
حق ہے۔ کسی کے نظریات کو زبردستی نھی بدلا جا سکتا۔ سب اپنے اپنے مدار میں ایک ہی
نیوکلیس کے گرد گھوم رہے ہیں اور وہ نیوکلیس ہمارا وطن پاکستان ہے۔
لہٰذا پہلے اُن دوستوں سے رابطہ کیا جو
شدّت سے عورت مارچ کے حق میں تھے اور جذبہ
تحفظ حقوق نسواں انکی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بھائی
ہم جب دیکھتے ہیں کے ہمارے ملک کی عورت ظلم کا شکار ہے، گھریلو تشدد ہے، کمسن بچیوں
کے ریپ ہوتے ہیں، مرضی سے شادی نہیں ہوتی تو ہمارا دل دکھتا ہے۔ اس لیے ہم اس تحریک
کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھ کر سپورٹ کر رہے ہیں کے شاید حکمرانوں کو ہوش اے اور وہ
عورت کو تحفظ دینے کے قانون کو صحیح معنی میں لاگو کریں۔
یہ باتیں بلکل عقل کے مطابق تھیں۔
لہٰذا میں یہ پوائنٹ نوٹ کر کے دوسرے طبقے کے دوستوں کے پاس حاضر ہوا۔جو مارچ کے
شدّت سے مخالف تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مخالفت کسی کو اسکے حقوق سے محروم کرنے
کے لیے نھی ہے۔ نہ وہ خواتین کو نوکر بنا کر رکھنے کے حق میں ہیں۔ اُنکا کہنا تھا
کے پاکستان میں جو عورت اسلامک تعلیم پر زندگی جینا چاہتی ہے جو پردہ کو ترجیح دیتی
ہے۔ جو خاندانی نظام کو اور شوہر کی فضیلت کو اہم سمجھتی ہے وہ جب یہ دیکھتی ہے کے
ایسے مارچ میں عورتیں ماہواری کے، بستر گرم کرنے کے، اور پردے کے خلاف سلوگن لا رہی
ہے تو وہ دلبرداشتہ ہو جاتی ہیں۔ حالاں کہ
وہ بھی چاہتی ہیں کے اس ملک کی عورت پر ظلم نا ہو اُسے حق ملے لیکن یہ مارچ صرف
مخصوص خواتین کا مارچ بن جاتا ہے۔
ایسے دوستوں سے جب پوچھا گیا کے بھائی
چلیں آپکی عورتیں اس وجہ سے مارچ کے خلاف ہیں لیکن آپ کیوں خلاف ہیں؟ اُنکا کہنا
تھا کہ ہم مارچ کے مقصد کو سمجھتے ہیں۔یہ اچھا اور فائدہ مند ہے خواتین کے لیے۔ لیکن
ایک مقصد حاصل کرتے کرتے اگر دوسرا ختم ہو جائے تو کیا فائدہ۔ ہم عورتوں کو تحفظ دینے
کے حق میں ہیں۔اُن پر ظلم نا ہو۔ مرضی کے خلاف شادی ما ہو وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن ہم
سمجھتے ہیں ایسے نعروں سے دین، کلچر اور گھریلو نظام پر وار ہوتا ہے اور خواتین کو
حقوق کے نام پر باغی بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے مطالبہ صرف اتنا ہے کے اس مارچ کے
سلوگن کو بدلا جائے اور مارچ میں پردہ دار عورت کو بھی شامل کرنے والا ماحول بنایا
جائے ۔
یہ باتیں بھی دل کو لگیں۔لہٰذا اب میری
منزل تھی تیسری کیٹیگری کے دوستوں سے رابطہ کرنا جو نہ مارچ کے حق میں بولتے دکھائی
دیے نہ مخالفت میں۔ ان بھائیوں نے کچھ ایسے سوالات سامنے رکھے جنہوں نے دل اور
دماغ کو ہلا ڈالا،
اُنکا موقف تھا کے ہماری گھر کی خواتین
پڑھتی ہیں نوکری بھی کرتی ہیں، مارکیٹ بھی جاتی ہیں، گھر پر ہم ملکر کھانا بنا لیتے
ہیں صفائی کے کاموں میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں جیسے کے اللہ کے نبی نے ہمیں
سکھایا ہے کے عورت ماں کے روپ میں جنت، بہن بیٹی کے روپ میں رحمت، بیوی کے روپ میں
برکت ہے۔ ہم نے سب حقوق دے کر اپنی خواتین سے اتنا تقاضا کر رکھا ہے کے حیا پردہ
اور اولاد کی تربیت یہ کام تم نے اپنی ترجیحات میں اوّل رکھنے ہیں جیسے کے اللہ نے
فرمایا کے خواتین اپنی زینت نہ دکھاتی پھریں۔ اس لیے ہماری خواتین یونیورسٹی جائیں
یہ دفتر اپنے لیے ایسا لباس منتخب کرتی ہیں جو اللہ کی ناراضگی کی وجہ نہ بنے۔ اور
وہ ایسا زبردستی نھی کرتی بلکہ خود قرآن پڑھ کر سیکھتی ہیں۔
اب آپ مجھے بتائیں کے جو لوگ عورت کو
تحریک دلوا کر حقوق کے لیے مارچ کرواتے ہیں
کیا انہوں میں اپنی زندگی میں کبھی کسی
عورت کی مدد کی ہے. کتنی بیوہ عورتیں مزدور کی طرح کام کرتی ہیں کیا کسی نے اپنی
آمدنی سے کوئی حصہ مقرر کر رکھا ہے ایسی مزدور ماں کو سپورٹ کرنے کا؟؟
کیا کسی نے کسی یتیم بیٹی کے پڑھنے کا
خرچ اٹھا رکھا ہے؟
کیا کسی نے کسی بیوہ کی بیٹی کی شادی کی
ذمےداری اٹھا رکھی ہے؟
کیا کسی نے کبھی تھانے جا کر یہ عدالت
جا کر کسی بےگناہ عورت کو آزادی دلوانے کے لیے اپنے وسائل استعمال کیے ہیں؟
کیا کسی نے تیزاب گردي کا شکار لڑکی کو
ڈھونڈھ کر اسکے چہرے کی سرجری کا خرچ اٹھانے کے لیے جدوجھد کی ہے؟
ہماری نظر میں یہ اصل خدمت ہے بھائی۔ کیوں کے ہمارے ہاتھ میں یہ طاقت نھی کے ہم خواتین کے حقوق کے قانون پر عمل کروا سکیں۔ ہمارے بس میں اتنا ہے کے ہم پریکٹیکل کام کرتے ہیں اور اپنا یہ کام دوسروں کی بتا کر اُنہیں ترغیب دیتے ہیں ایسے بہت سی خواتین کا بھلا ہو جاتا ہے۔ ہم خود اپنی آمدنی سے ایسی خواتین کو سپورٹ کرتے ہیں۔ آپکے معاشرے کے جتنے لوگ عورت کے لیے تحفظ چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے لیول پر یہ کام
شروع کر کے دیکھیں کیسے خوشحالی اتی ہے۔ بس سال میں ایک دفعہ نعرے لگا کر چپ ہو جانا کافی نھی۔
تین طرح کے مختلف نظریات کے لوگوں سے
ملکر انکی رائے لیکر میں نے غور کیا تو یہ سوالات مجھے سوچنے پر مجبور کر
گئے
کے کیا میں اپنے لیول پر ایسا کچھ کر رہا ہوں۔
کیا ہم سب بحثیت معاشرہ یہ کام کر رہے
ہیں؟
کیا ایک دن عورت مارچ کرنے کے بعد ہم مظلوم عورتوں کے لئے کچھ عملی کام کرنا بھول تو نھی جائیں گے؟
MashAllah..great
ReplyDelete