کیپسول ‏


کچھ دن پہلے ایک کافی شاپ پر انجانے میں ٹکر لگ گئی۔
چونکہ غلطی میری تھی اس لئے خیال آیا کہ ابھی ٹکر کھانے والے کی طرف سے لفظوں کی گولا باری شروع ہو گی مگر ایسا نہ ہوا۔ ذرا ہوش سنبھالا تو ایک آواز
آئی ایم سوری.
پہلے تو اس کے اس شائستہ رویے پر حیرانی ہوئی پھر خود کو ہلکا سا تھپڑ مارا اور جھنجوڑا کے کہیں میں خواب تو نھی دیکھ رہا۔ غلطی میری ہے اور سوری ٹکر کھانے والی کر رہی ہے۔ خیر کپ اٹھایا،کپڑے صاف کیے اور مصنوئی ہنسی کے ساتھ اندر چھپی شرمندگی کو کور کیا۔
میز پر بیٹھا لپتوپ آن کیا ایک كال ریسیو کی اور سوچا نیا کپ لے کر اتا ہوں۔اتنے میں نظر لپتوپ سے اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کے وہ خلقِ خدا ہاتھ میں کافی کا کپ لیے میری ہی طرف رواں دواں ہے۔ حیرت سے آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی خیال چلنے لگے تھے۔ وہ قریب ای اور بڑے اخلاق سے کافی دیتے ہوئے بولی
یہ کافی آپکے لیے ہے اور یہ ایک لیٹر بھی
وہ تو یہ کہہ کر لیٹر تھما کر چلی گئی لیکن میرے خیالوں میں تو اس خاتون کے ساتھ اگلے چالیس سال کی زندگی کا نقشا کھنچ چکا تھا۔ کافی کا سپ لیا اور خوشی سے لفافہ کھول کر پڑھنا شروع کیا تو سارے جذبات اُسی وقت ٹھنڈے پڑ گئے۔
۔ لیٹر کےاندر لکھا تھا
جس سے تم نے ٹکر کھائی وہ ادھر جاب کرتی ہے اور جس نے تمھیں یہ لیٹر بھجوایا ہے وہ حسین انسان میں ہوں۔ لہٰذا اب یہ پرانی فلموں کے فلاپ خیالات سے باہر نکلو اور ٹیبل ٹو پر اؤ۔ اس دنیا میں تمہارا اکلوتا خیرخواہ مقصود۔  


مقصود بھائی ایک ٹیکنیکل آدمی ہیں۔ اللہ نے انہیں عقلی دلیل سے بات کرنے میں کمال عطا کیا ہے۔ زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے پر موقع کی مناسبت سے ملاقات کو یادگار بنانے کا ہنر کسی کسی کو اتا ہے۔ مقصود بھائی نے میری ٹکر کو کیسے مزاح میں بدلا یہ اُنکا ہی کمال ہے۔میں اکثر ان سے رہنمائی لیتا رہتا ہوں۔ میں نے کچھ دِن پہلے اُن سے ایک سوال کیا تھا اور اسی سلسلے میں یہ ملاقات طے ہوئی تھی۔
سوال کچھ یوں تھا کہ
مقصود بھائی ایسا کیسے ممکن ہے کے جو بات انسان کو پسند ہو بس وہی ہر شخص صحیح سمجھے۔ اسکے خیالات اسکی سوچ اسکے افکار ہی اُسے صحیح لگیں۔ کوئی مخالف نظریہ نہ پسند اے نہ انسان اُسے سچ مانے۔ کوئی دوسرا رائے دے بھی تو اسکی دلیل غلط ہی دکھائی دے۔ جیسے اکثر انسان دوسروں کی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور شدّت پسندی کے ساتھ اپنا ہی نظریہ اپنا ہی عقیدہ سچ اور حق سمجھتے ہیں۔ چاہئے سیاسی گفتگو ہو یا مذہبی۔ تو ایسے کیسے ممکن ہے۔ رویوں میں یہ چیز کیسے آ جاتی ہے۔
مقصود بھائی جو اطمینان سے میری بات سن رہے تھے،بولے
*کیوں نہیں ایسے لوگوں سے تو دنیا بھری پڑی ہے۔ اگر میں تمہیں ایسے بندوں کی مثالیں دے کر سمجھاؤں گا تو شاید تم مخالفت کر جاؤ اور اُن لوگوں کے حق میں کوئی دلیل دینے بیٹھ جاؤ۔ لہٰذا میں تمہیں ایسے نُسخہ دیتا ہوں جو تمہیں خود ایسا بنا دے گا۔ پھر تم اپنے سوال کا جواب خود ہی ڈھونڈھ کو گے*
*
میں نے حیرانی سے پوچھا
"
واہ ایسا بھی کیا نُسخہ ہو سکتا ہے"
کیوں نہیں, بلکل ہے، مقصود بھائی نے کہا اور مجھے انتظار کرنے کا کے کر اٹھ کر چلے گئے۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آئے اور اپنے بیگ سے کچھ سامان نکالنے لگے۔
"
یہ لو، یہ پکڑو ،یہ میرا نُسخہ ہے۔ میں اسے کیپسول کہتا ہوں۔ ہر کیپسول کا اثر مختلف ہے۔ تم یہ پہلے والا کیپسول چار مہینے کھا لو پھر دیکھو کیسے تمہیں اپنے سوال کا جواب ملتا ہے۔تمہیں تمہارے نظریے کے علاوہ کوئی نظریہ ہی ٹھیک نہیں لگے گا۔
ہاں یاد رہے اس میں جو پرہیز بتایا ہے وہ بھی ضروری کرنا ہو گا۔ ورنہ نسخے کا اثر نھی ہوگا۔ مقصود بھائی نے یہ کہتے ہوئے کیپسول مجھے تھما دیا۔
نُسخہ لے کر میں نے بیگ میں ڈالا۔ اور مقصود بھائی سے اجازت لے کر وہاں سے چلا ایا۔ گھر پہنچ کر بیگ محفوظ جگہ پر رکھا۔ اور اگلے دن سے نُسخہ کو شروع کرنے کی نیت کر ڈالی


اگلی صبح اٹھتے ہی نُسخہ نکالا اُسکی ترکیب دیکھی اور اجزاء ڈھونڈھنے سے لیکر ا اسکو استعمال کرنے تک کی ساری پلاننگ کر ڈالی۔ سارا دن اس کام میں صرف کرنے بعد شام کو نسخے کے مطابق پہلی ڈوز لّی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
وقت گزرتا گیا۔ ترتیب کے مطابق مقصود بھائی کا دیا ہوا نُسخہ کیپسول استعمال کرتا گیا۔
سماجی گروپ کی جگہوں جیسے فیسبوک پر میں اکثر ایکٹو رہتا تھا۔ لوگوں کی مدد کرنے کا جہاں موقع ملتا کوشش ہوتی کے اپنا حصہ ڈالا جائے۔ اس لیے کبھی کسی موزوں پر بات چیت لمبی بھی ہو جایا کرتی تھی۔ پر کبھی کسی سے بحث کو نہ پسند کیا نہ کبھی حصہ ڈالا۔


ہوا کچھ یوں کے کیپسول کو استعمال کیے ابھی مہینہ گزرا تھا کے ایک گروپ پر کچھ دوستوں کے درمیان مذہبی بحث چھیڑ گئی۔ ایک بندے کا موقف تھا کے پاکستان میں گستاخ رسول کی سزا کے قانون کو ختم کیا جائے ۔ کچھ کا موقف تھا کہ نھی یہ قانون کسی صورت نھی ختم ہو سکتا۔ اور کسی شخص میں اتنا ظرف نہ تھا کے دوسرے کے رائے کا احترام کرتا۔ بس اپنی بات منوانے اور خود کو ہی عقل کل سمجھنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا تھا۔ میں جو خود کو ایسی بحث سے کنارا کر کے رکھتا تھا اج نہ جانے کیوں انکی باتیں غور سے سن رہا تھا۔شاید مقصود بھائی کی کیپسول نے فرق ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ میں اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ جو باتیں میرے لیے نہ پسندیدہ تھیں وُہ مجھے اچھی لگ رہی تھیں۔ اور میرے پاس بولنے کے لیے جواب دینے کے لیے کافی کچھ ذہن میں اکٹھا ہو چکا تھا۔میں پوری دسکشن میں اپنے ذہن میں انکی باتوں کے جواب تیار کے بیٹھا ریا لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ایسے لگتا تھا جیسے میرا جواب غلط نہ ہو کہیں۔ کوئی اس پر مجھ سے زادہ مضبوط دلیل نہ دے بیٹھے اور مجھے شرمندگی ہو۔ خیر بحث ختم ہو گئی۔ سب اپنے اپنے اندر بنے سچائی کے بتوں کی پوجا کر کے خاموش ہو گئے۔ وقت گزر گیا۔


اب نُسخہ استعمال کرتے ہوئے چار مہینے گزر چکے تھے۔اور میں اسکے مکمل اثرات دیکھنے کے لیے بےچین تھا۔ ایک دن یوں ہوا کے کسی نے واٹس ایپ گروپ پر سیاسی بحث چھیڑ دی۔ ایک خاص نکتہ نظر سے افواج پاکستان اور سیاسی رہنماؤں کا تقابلی جائزہ زیرِ بحث آ گیا۔کسی نے جمہوریت کی حمایت کی۔ کسی نے فوج کو ملک کا مسیحا قرار دیا۔ سلام دعا سے شروع ہونے والی بات اب جذبات گرما چکی تھی۔ اب کے تو جیسے مجھ میں بھی ایک خاص انرجی تھی۔ پوری ہمت کے ساتھ اپنا موقوف میں نے بھی دیا۔ ایک دلیل کے بدلے دو دلیلیں دی۔آگے سے انے والے جواب کو تاریخ کا حوالہ دے دے کر ماننے سے انکار کردیا۔ اج میں بھی خود کو عقل کل سمجھ رہا تھا۔ جیسے میری بات ہی صحیح ہے۔میرا موقف ہی درست ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کے ایک ہی بار زبان کھولنے کی پاداش میں کافی دوستوں کے ساتھ دلوں میں عداوتیں بنا بیٹھا۔ کسی نے کہا تم سے یہ امید نہ تھی۔ کسی نے کہا تم پڑھے لکھے جاھل ہو۔خیر سے میرے بھی انکے بارے میں یہی تاثرات تھے۔میں بھی الفاظ سے کافی گولے برسا چکا تھا۔ نتیجہ سوائے نفرتوں کے سوائے دوریوں کے اور کیا نکلنا تھا۔ حالانکہ میں ایسا نہیں تھا۔میری طبیعت کسی کو تکلیف والی بات کہہ کر سکون میں نھی رہتی تھی۔پر یہ کیا ہوا چار مہینوں میں کہ مزاج بلکل بدل گیا۔ ایسا کیا تھا اس نسخے میں جس نے مجھے اپنے موقف پر ایسا ڈھیٹ بنا ڈالا۔ بس اس کا جواب لینے کے لئے اب مقصود بھائی 
سے ملنا ضروری ہو گیا
۔اگلے ہی دن ان سے ملاقات طے کی۔
مقصود بھائی یہ مجھے کیا کردیا آپ نے۔ میرے نظریات تو اتنے سخت نہ تھے۔ میں نے جذباتی انداز میں کہا،
مقصود بھائی بولے" کیوں تم نے ہی سوال کیا تھا کے لوگ ایسے کیسے بن جاتے ہیں۔ تو اب تمہیں سمجھ آ گئی ہو گی"
جی جی ا گئی ہے۔اب خدا را مجھے اسکا علاج بتائیں میں ایسا نہیں رہنا چاہتا۔ میں لوگوں کے موقف کا احترام کر کے جینا چاہتا ہوں۔ کسی کو مجھ سے اختلاف بھی ہو تب بھی میں اُسکی عزت اُسکی تکریم کرنا چاہتا ہوں۔
میرا جواب سن کر مقصود بھائی نے صرف اتنا کہا کے وہ جو پرہیز تمہیں تجویز کیا تھا وہ چھوڑ دو باقی نسخے پر عمل کرتے رہو ٹھیک ہو جاؤ گے۔یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلے گئے۔
بلکل ایسے ہی ہوا پرہیز چھوڑتے ہی جیسے زندگی نارمل ہو گئی ہو۔


اگر آپ بھی مقصود بھائی کے اس نسخے پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ہی موقف کو سچ مان کر اپنے اندر انا اور غرور کے بت تراشنا چاہتے ہیں تو نُسخہ عرض کیے دیتا ہوں
چار مہینے صرف اپنی سوچ اور اپنے عقیدے کے مطابق کتابیں پڑھیں۔ جیسا آپ سوچتے ہیں انہی مصنفوں کو اپنا ہیرو مان کر انکے آرٹیکلز انکے بلاگز پڑھتے جائیں۔ جیسے مقصود بھائی نے مجھے وہی کتابیں نسخے کے طور پر دی تھیں جن سے میں پہلی ہی اتفاق کرتا تھا۔ پر میرے پاس دلیل کی کمی رہتی تھی جو شائد بحث میں نہ پڑنے کی وجہ تھی لیکن اپنی ہی سوچ کے مطابق کتابیں پڑھ کر میں نے جو حوالاجات یاد کر لیے تھے وہ مجھے انتہاء پسند بنانے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔
اور ہاں پرہیز کے طور پر اپنے سے مخالف نظریات رکھنے والی کتابیں بلکل نہ پڑھیں۔ نہ مخالف نظریے کے حق میں لکھی جانے والی کوئی کتاب، آرٹیکل یا بلاگ پڑھیں۔اگر لبرل ہیں تو دین کے علم والی کتابوں کا پرہیز کریں۔ اگر آپ فوج کے مخالف ہیں تو سیاستدانوں کے کرتوتوں پر لکھے جانے والی آرٹیکل پڑھنے سے پرہیز کریں۔"
یہ کیپسول صرف چار ماہ کھا کر دیکھیں آپ خود کو عقل کل اور اپنے موقف کو ہی سچ ماننے والے نہ بن جائیں تو آپکے ہاتھ ہوں گے اور میرا گریبان۔  


Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل