ضمیر بھائی
پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر کرتے ہوئے کافی کرکٹ کھیلی۔ ایک دوسرے
ڈیپارٹمنٹ کا لڑکا اکثر ملا کرتا تھا۔ کرکٹ ہم دونوں بہترین کھیلتے تھے اور اتفاق سے بول چال میں بھی اچھے تھے تو جلدی ہائے ہیلو ہونے لگی۔ ایک روز اسکی ٹیم سے سالانہ سپورٹس گالا کا سیمی فائنل میچ تھا پر وہ اس میچ میں نہ کھیلا۔ اتنا اہم میچ اور مرکزی کھلاڑی ٹیم سے باہر۔ بات ہضم نا ہوئی کچھ۔تجسس ہوا اسکے ٹیم کے کھلاڑیوں سے پتہ کیا تو کوئی مناسب جواب نہ ملا ۔ گیم کے بعد اپنے دوست مجید سے اسکے بارے میں دریافت کیا۔ مجید کی دوستی اسکے باقی ساتھیوں سے تھی۔
پتہ لگا کے وہ لڑکا قادیانی ہے۔ اور اسکے کلاس والوں نے اسکا بائیکاٹ کر دیا ہے۔کوئی کہہ رہا تھا کے اس سے تعلق ہمیشہ کے لیے ختم کرو۔ کوئی کہہ رہا تھا اُسے موقع دو اپنی بات کرنے کا۔ کوئی کہہ رہا تھا اُسے علم کی روشنی میں سمجھاؤ۔
پر موقع کون دیتا جب کے مذہبی جذبات اونچے تھے۔ سمجھتا کون کسی کے پاس قرآن کی مکمل دسترس تھی نہ کسی کے پاس احادیث اور مفسرین کی کتابوں کا علم۔ بات بڑی نازک تھی۔ شاید دنیا دار نظر انے والے لوگ اس لیے چُپ تھے کے انکو بھی اسکا ساتھی نہ سمجھ لیا جائے۔اور بظاھر دین دار نظر انے والے علم کی کمی کی وجہ سے چپ تھے۔
اللہ نے ہر سیریس موقع پر ہنسنے اور ہر مشکل وقت میں اکیلا کھڑے رہنے کا حوصلے دیا ہے مجھے۔ ہمت کی آگے بڑھا ڈیپارٹمنٹ کے پاس کھڑے مجمع میں سے ایک شخص کو چنا جو کرکٹ میچ میں بھی ہوتا تھا۔اسکے پاس گیا اور سلام دعا کر کے کہا،
“مانا کہ وہ قادیانی ہے پر اُسے زندہ رہنے کا تو حق ہے۔پڑھنے کا، کرکٹ کھیلنے کا تو حق ہے۔ وہ خود تو نبوت کا دعویدار نھی۔ اگر کسی اور کو نبی مان رہا ہے تو اسکی وجہ یہ کہ وہ اس گھر میں پیدا ہوا جہاں لوگ کسی اور کو آخری نبی مانتے ہیں۔ آپ تو اسکے ساتھ رہے ہو پھر بھی ایسا اجتماعی بائکاٹ کیوں۔ اُسے ملئے اور کسی عالم کے پاس لیکر جائے لیکن زبردستی نھی۔”
یہ ضمیر بھائی تھے۔انکا حلیہ دیکھ کر میں نے اندازہ کیا تھا کے یہ متوازن آدمی ہیں ۔اور اُنکا جواب سن کر مجھے احساس ہوا کے چہرے پر داڑھی اور لباس کی سادگی دیکھ کر کسی کے دین دار ہونے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور نہ کسی کے کلین شیو اور جینز کو دیکھ کر لا دین ہونے کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا سکتے ہیں۔دین صرف حلیہ کا نام نھی۔ صبح آنکھ کھولنے سے لیکر رات کو آنکھ بند کرنے تک زندگی کے ہر معاملے کو اللہ اور اسکے رسول کے مطابق گزارنے کا نام دین ہے۔
ضمیر بھائی بولے” میرا احتجاج اس بات پر نھی کے وہ قادیانی کیوں ہے۔میرا احتجاج اس بات پر ہے کے اُسنے مجھ سے جھوٹ بولے رکھا کے وہ مسلمان ہے۔ اُسے خود کو نون مسلم کہنا چاہئے تھا۔”
کتنے بھولے ہیں آپ۔ اگر وہ خود کو قادیانی اور غیر مسلم کہتا تو کیا آپ لوگ یہ بات برداشت کرتے۔لڑکوں نے تو پہلے دن ہی بائیکاٹ کر دینا تھا اسکا۔ جو نوبت اج ای ہے وہ پہلے آ جانی تھی۔ اور شاید کوئی جذبات میں آ کر اسے نقصان پہنچا دیتا۔ اُسے پہلے بحث پر آمادہ کیا جاتا پھر گستاخی کا الزام لگا دیا جاتا۔ میں نے چھوٹی سے تقریر کرتے ہوئے کہا۔
ضمیر بھائی بھی سیانے تھے آگے سے بولے
“محترم، اگر ایسی بات ہوتی تو ربوہ کو جانے والے ہر رستے کو آگ لگ چکی ہوتی، پورا علاقہ جلا دیا گیا ہوتا، ہر شخص آخرت کی بخشش سمجھ کر ربوہ کی طرف کنکر مار چکا ہوتا۔ پر ایسا نہیں نہ۔ قوم اتنی بھی مشتعل نھی جتنا اس میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ میں جامعہ کراچی سے پڑھا ہوں۔ دین کا علم جانتا ہوں۔ اور ٹھنڈے مزاج سے سوچتا ہوں۔ میرے جیسے ہزاروں لاکھوں اور بھی ہیں۔ “
ضمیر بھائی سے ملاقات یہیں ختم کی۔ وہ ایک عالمِ دین اور انجینئر بھی ہیں۔ یہ دیکھ کر حیرانی کم خوشی زادہ ہوئی۔ اُنکا نمبر لیا اور مستقبل میں رہنمائی کے لیے کال کرنے کی اجازت بھی لی۔ اس تازہ معاملے پر جو ابھی پاکستان میں ہوا سوچا ضمیر بھائی سے بات کی جائے۔
لمبی باتیں ہوئیں۔بہت سے پہلو زیرِ غور اے۔ کچھ باتیں جو انہوں نے کی وہ آپکے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
1- سب سے پہلے تو یاد رکھیں نظام جذبات سے نھی چلا کرتے۔ہر شخص کو رائے کا حق ہے مگر کسی کو تکلیف پہنچانے کا نھی۔ اپنی اندر کے غصے،نفرت اور احساس محرومی کو پبلک فورم پر نکالنے کا نام رائے نھی۔ رائے یا مشورہ وہ دیں کے جس سے مثبت تبدیلی آئے۔
ایک ڈاکٹر اگر انجینئر کے بنائے ہوئے ڈیزائن پر صرف تنقید کے لیے بولے کے جس سے انجنئیر مستقبل میں اچھا کام کرے تو ٹھیک ہے۔لیکن اگر وہ انجنئیر کو ڈیزائن بنانے کے طریقے سمجھائے تو بات عقل سے بالا تر ہے۔ ایسے ہی اگر قرآن اور حدیث کا مکمل علم نھی اور کوئی دین کے حساس معاملات پر صرف تنقید کرے تو ٹھیک لیکن انکو بدلنے کے اور انکی حیثیت پر اپنے فارمولے دے تو یہ سہی نھی۔
2- فیصلہ عدالت نے دیا ہے۔چاہتے ہوئے یہ نہ چاہتے ہوئے آپکو ماننا پڑے گا۔جیسے نواز شریف کو سزا ہوئی۔مشرف کو سزا ہوئی۔ ایسے ہی یہ بھی ایک فیصلہ عدالت کا ہے۔ اگر آپ فیصلے کو ہے نھی مانتے تو آپکی لڑائی عدالتوں کے ساتھ ہے۔ انکو ٹھیک کریں کے غلط فیصلے کیوں دیتی ہے۔
3- اگر آپ سمجھتے ہیں کے ججز ڈر گئے ان پر دباؤ تھا یہ وہ بک گئے یا خرید لیے گئے تو ایسا ہر کیس میں ہوتا ہے۔ کیا نواز شریف نے نھی خریدنے کی کوشش کی ہو گی وہاں کیوں نھی بکے جج اور اتنے پیسے والے کے خلاف فیصلہ دے دیا۔؟
کیا ایک طاقتور ادارے نے اپنے جرنیل کو بچانے کے لیے ججز کو نھی دبایا ہو گا لیکن فیصلہ انکے خلاف ایا وہاں کیوں نھی دباؤ میں آئے جج؟
لیکن جب بات مذہبی آئی تو آپ نے بڑے آرام سے کہہ دیا ججز پر دباؤ تھا۔ باقی فیصلہ میں جج دیوار بن گئے اور یہاں پگھل گئے تھے بات ماننے والی نھی۔
5- اگر آپ عدالت کے فیصلے کو مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کے ختم نبوت کے قانون کو امپلمنٹ کرنے میں غلطیاں ہیں اور لوگ اسکا نہ جائز فائدہ اٹھاتے ہیں اس میں بےگناہ مارے جاتے ہیں تو اس پر گفتگو الگ طریقے سے ہو گی۔ کیوں کے قانون تو اور بھی بہت سے ناجائز استعمال ہوتے ہیں۔ میں خود کچہریوں میں جاتا رہا ہوں۔ میری آنکھیں گواہ ہیں کے وہاں پر قتل کے مقدمہ میں لوگ جھوٹے گواہ خریدتے ہیں۔ کچہریوں میں باقاعدہ لوگ ہوتے ہیں جو جھوٹی گواہی کے لیے پیسے لیتے ہیں اور آپ جو چاہے کہلوا لیں اُنسے۔
4- اگر آپ عدالت کے فیصلے کو مانتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کے ختم نبوت کے قانون کو ختم کر دیا جائے تو الگ طریقے سے گفتگو ہو گی۔ کیوں کے اگر جمہوریت کا نام اکثریت کی رائے ہے تو پاکستان میں اج بھی اگر ووٹنگ کروائی جائے تو اسی فیصد سے زائد لوگ اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانے کی اپیل کریں۔ بجائے اسکے کے خود دانشور بن کے معاشرے میں لوگوں سے نفرتیں رکھیں۔
5- اور اگر آپ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں کے یہاں کی ریاست کے قانون مذہب کی بجائے انسان خود بنائیں تو الگ انداز سے گفتگو ہو گی۔ کیوں کے مسلمان ہونے کا مطلب ہے یہ ہے کہ اللہ کا حکم زمین پر نافذ کیا جائے۔ سیکولر نظریات کا مطلب ہے کے آپ قرآن کے بہت سے حکم کی نفی کر رہے ہیں۔ یہ الگ ٹوپک ہے۔
آخر میں اتنا کہوں گا کے پہلے ٹھنڈا پانی پئیں۔ اپنے بارے میں سوچیں کے آپ کیا ہیں۔آپکے نظریات کیا ہیں۔آپ کیا چاہتے ہیں۔خالی اپنے نظریے کے لوگوں کی کچھ کتابیں پڑھ لینے سے آپ کی بات میں وزن نھی اتا۔ اسلام پر بات کرنی ہے تو اسلام کو بھی پڑھیں۔ تاریخ کے حوالے تو آپ نے انگریزوں کی لکھی کتابوں سے دے دیے لیکن جب آپ سے میں قرآن کا حوالہ پوچھتا ہوں یا آپکو رسول اللہ کی زندگی کے حوالے دیتا ہیں تو آپ کو ذرا علم نہیں ہوتا۔ کسی نظریے سے دور بھاگنے سے پہلے اس نظریے کو اچھی طرح مطالعہ کریں پھر اس پر تنقید کریں۔ حال یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر پڑھے بنا آپ اسکو مشکوک بنا رہے ہیں۔
اس لیے اپنے نظریات اپنے افکار کو قرآن کے علم سے بھی مضبوط بنائیں ورنہ آپکو بھی کوئی قرآن نہ پڑھا ہوا جذباتی شخص گستاخ سمجھ کے نقصان پہنچا دے گا۔
اللہ آپکا حامی ہو۔ اگلے نشست سے پہلے یہ ضرور بتائے گا کے آپ کیا ہیں تا کے اسی سمت میں مثبت گفتگو ہو اسکے۔
اللہ حافظ۔
آپکا خیر خواہ
آپکا ضمیر۔
Comments
Post a Comment