ارطغل سیزن ‏اور ‏آٹھ ‏اسباق


ترکش ڈراما ارطغل کی خاص بات اسکو دیکھ کر ایمان کا بڑھنا ہے۔ ظاہر ہے فی  زمانہ ڈرامے دیکھ کر یہ بات ناقابل یقین 
لگتی ہے۔ مجھے بھی کچھ ایسا ہی گمان تھا کے عام سے ڈائلاگ والا کوئی ڈراما ہوگا۔ دوسرا اسکی قسطیں بہت زیادہ ہیں۔ اصل ڈراما پانچ سیزن پر محیط ہے۔ ہر سیزن کی تیس قسطیں ہیں۔ہر قسط دو گھنٹے میں فلمائی گئی ہے۔اس طرح کل ایک سو پچاس قسطیں ہیں۔ نیٹ فلکس پر ہر قسط کو تین اقساط میں توڑا گیا یو یوں نیٹ فلکس پر تقریباً ساڑھے چار سو اقساط ہیں۔اور ہر قسط چالیس منٹ کی ہے۔ اس لیے کافی ٹائم تک اسے دیکھنے کا ذہن نہ بنا۔
 کورونا وائرس نے پچھلے ماہ سے جو افرا تفری پھیلا رکھی ہے اور سارا ٹائم گھر گزرتا ہے تو سوچا کیوں نہ آخر ارطغل دیکھ لیا جائے۔ ٹائم تقسیم کیا۔ شارٹ ٹرم پلان سیٹ کیا۔ روٹین بدلی اور قرانٹائن کا پہلا گول حاصل کرلیا۔ ڈراما دیکھنے کے بعد سوچا کہ اُسکی مختصر لیکن جامع حاصلات پر بات کی جائے۔ جو کچھ سیکھنے کو ملا وہ شیئر کیا جائے۔

سبق نمبر ایک۔
دین خالی عبادت کا نام نھی۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کے سلیمان شاہ کے بیٹے ارطغل نے شروع سے اپنی زندگی کا ایک مقصد طے کر رکھا تھا۔ وہ مقصد اللہ کے دین کے نظام کو نافذ کرنا تھا۔ یہاں لفظ نظام قابلِ غور ہے۔ جب منگولوں نے دنیا کا نقشا بدلنا شروع کیا اور مسلم علاقے قبضے میں لیے اور جان بخشی کے بدلے مسلم ریاستوں سے ٹیکس لینا شروع کیا تو مسلمانوں پر زمین تنگ ہونے لگی۔جن قبیلوں نے مزاحمت کی اور ٹیکس سے انکار کیا وہ کچل دیے گئے۔ بستیاں جلا دی گئیں۔جن لوگوں نے ظالموں کے آگے سر جھکا دیے وہ اپنی زندگی تو بچا گئے لیکن انکی تجارت برباد ہو گئی۔ منگولوں کو ٹیکس دینے کی وجہ سے تاجر اشیاء خورد کے ریٹ بڑھانے پر مجبور ہوئے۔ عام آدمی تک اسکا اثر گیا۔ ایسے لوگ اپنی عبادت گاہیں آباد کرنے کے لیے تو آزاد تھے لیکن دین کے معاشی اور سماجی پہلو سے محروم تھے۔ اسلام اللہ کی عبادت اور اسکے دیے ہوئے معاشی،سماجی نظام کے مجموعے کا نام ہے۔ دین کی یہی تعریف اس ڈرامے میں دکھائی گئی ہے۔ارطغل غازی نے اللہ کے دین کو بحیثیت عبادت کے ساتھ ساتھ ایک نظام کے طور پر نافذ کرنے کیلئے تلوار اٹھائی۔ ڈرامے کے ڈائیلاگ کی خوبصورتی یہ ھے کہ انہیں سننے سے دیکھنے والے کے اندر نظام الہی کی ٹرپ پیدا ہوتی ہے۔ ارطغل کے زیرِ نظام علاقوں میں تجارت کا نظام اسلامی قانون کے مطابق ہوتا تھا۔ جو تاجر کم آمدنی والے ہیں اُن پر کم ٹیکس لگتا تھا۔ آفت اور مصیبت کے وقت جب تاجر نقصان میں ہوتے تھے تو ٹیکس معاف کر دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے نے داڑھی، لباس، عبایا، الغرض ظاہری شکل صورت پر اتنا زور دیا ہے کے لوگ انہی چیزوں کو پورا کر کے سمجھتے ہیں شاید دین پر عمل ہو گیا۔ اسی لیے اس ڈرامے کو ترکی کا خفیہ ہتھیار کہا جا رہا ہے کیوں کے اس کو دیکھنے والوں کے اندر اسلام کو بحیثیت نظام نافذ کرنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔

سبق نمبر دو
روحانیت۔
ڈرامے میں ابنِ عربی کا کردار دکھایا گیا ہے۔ ابنِ عربی شیخ عبدالقادر جیلانی کے روحانی شاگرد ہیں۔ ابنِ عربی اپنی مجلس میں اپنے شاگردوں کو بتاتے ہیں کے دین اسلام کی احیاء کے لیے اللہ نے ارطغل کو منتخب کیا ہے۔ اور ارطغل کا بیٹا عثمان اس مشن کو آگے بڑھائے گا۔ انہی کی نسل میں سے ایک سلطان قسطنطنیہ کا فاتح بنے گا۔ ارطغل ایک بار دوسرے شہر میں محل میں مہمان بنے اور ایک غدار وطن کی چال میں پھس گئے۔موم بتی میں زہر ملایا گیا۔ زہریلے دھوئیں کی وجہ سے بیہوش ہو کر ارطغل بیڈ پر گر گئے۔ محل میں موجود منافق اسی انتظار میں تھا۔ قریب تھا کے وہ آپکو شہید کرتا اتنے میں خواب میں ابنِ عربی ائے اور توجہ ڈال کر ارطغل کو بیدار کروا دیا گیا۔  ڈرامے میں مزید دکھایا گیا ہے کے جب بھی  ارطغل اور ابنِ عربی کی نشست ہوتی ہے تو اللہ کے نبی کی زندگی سے واقعات بتا کر ابنِ عربی ارطغل کو موٹیویشن دیتے ہیں۔ جب ارطغل کے پاس وسائل کم ہیں تو غزوا بدر کی مثال سے سمجھاتے ہیں۔ جب ارطغل کے کسی بہادر مجاہد کی شہادت ہوتی ہے تو غزوا اُحد کی مثال سے اُنہیں تسلّی دیتے ہیں۔ ابنِ عربی کی اس تربیت کے ساتھ ساتھ دکھایا گیا ہے کے ارطغل ہر فتح پر خوشی میں یہ کہتے ہیں کے یہ اللہ میں طرف سے ہے اور ایک ڈائلاگ بولتے ہیں کہ
لڑائی ہمارے لیے ہے اور فتح اللہ کے لیے۔ 
یعنی ہمارا کام کوشش کرنا ہے فتح اللہ دیتا ہے۔ 
 روحانیت کا یہ تصوّر اسلام کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔  ارطغل دیکھنے سے اللہ پر یقین کی دولت ملتی ہے۔ ڈرامے کے ڈائلاگ لکھنے والوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کے پورا سیزن دیکھنے کے بعد ناظرین کا اللہ پر اعتقاد مضبوط ہو جائے۔ 

سبق نمبر تین
بچوں کی تربیت۔
ارطغل کی اپنے بیٹوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو والدین اور بچوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ جب بھی بیٹوں کی طرف سے کوئی سوال ہوتا ہے ارطغل اسکے جواب میں دلیل اور ایمان کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ انکو بتاتے ہیں کے جب تک ہم عدالت اور حق کی خاطر لڑیں گے تب تک ہمیں کوئی نھی ہرا سکتا۔ اور اگر ہم شہید بھی ہو گئے اس راستے پر تو اللہ کسی اور کو یہ ذمےداری کے لیے چن لیگا۔ یہ اُن والدین کے لیے بہترین مثال ہے جو بچوں کو جواب دینے کی بجائے یہ کے کر چپ کروا دیتے ہیں کے ابھی تم اتنے بڑے نھی ہوئے کے تمہیں یہ بات سمجھ ائے۔
آخری سیزن میں دکھایا گیا ہے کے شہر کی مسجد کے امام بچوں کو اللہ کے ناموں کے مطلب سمجھاتے ہیں۔ہر نشست میں ایک نام پر تربیتی سیشن ہوتا ہے۔ ال عادل کا مفہوم سمجھانے کے لیے حضرت عمر کے عدل کی مثال دی جاتی ہے۔ ال قہار کا معنی سمجھایا جاتا ہے۔ یہ والدین کے لیے اچھا سبق ہے کے وہ بھی اس طرح سے بچوں کے ساتھ گفتگو کریں۔

سبق نمبر چار
انصاف اور عدالت
ڈرامے میں بہت بار ارطغل نے اس بات کو دہرایا ہے کے عدالت اور انصاف جب تک قائم رہے گا ہمیں کوئی نھی ہرا سکتا۔ اس کی عملی شکل بھی ڈرامے میں موجود ہے۔ ارطغل کا بھائی دوندر جب غلطی کر بیٹھتا ہے تو ارطغل اُسے سزا کے طور پر قبیلہ بدر کر کے اپنے بھائی کے پاس دوسرے قبیلے میں بھیج دیتے ہیں۔ ماں معافی کا مطالبہ کرتی ہے تو ارطغل کہتے ہیں کے جب تک ہمارے اندر انصاف پر فیصلہ نہیں ہوگا تو لوگوں کو کیسے عدل کا درس دیں گے۔ ارطغل کا فوج کا سربراہ غلطی کرتا ہے تو آپ اسکا اعزاز واپس لیکر اُسے ایک عام سپاہی بنا دیتے ہیں۔ ناظرین کے لیے یہ مثالیں بہت پر اثر ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے یہ ذہن سازی کا کام کریں گی۔

سبق نمبر پانچ
قائدانہ صلاحیت
ترک قوم کے بارے میں دکھایا گیا ہے کے وہ اہانت کو برداشت نہیں کرتی۔ اس سے دیکھنے والوں کو یہ پیغام جاتا ہے کے اگر کوئی غلطی کرے تو معاف کردو لیکن غداری کرے تو عبرت ناک سزا دو۔ یہی اج کے وقت کی ضرورت بھی ہے۔ مسلمان ہمیشہ اپنے اندر سے سازشوں کی وجہ سے مار کھاتا ہے۔ اس ڈرامے میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کے ارطغل پہلے کس طرح اپنے ہی قریبی بندوں کی غداری کی وجہ سے پسپا ہوتے رہے اور کس طرح سے پھر اُنکا ادراک کر کے اُنہیں ختم کرتے رہے۔ یہ قائدانہ صلاحیت سمجھانے کا بہترین ڈراما ہے۔  خاص طور پر آخری سیزن میں ارطغل کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کے ہمیں یہ جنگ تلوار کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن سے جیتنی ہو گی۔ دشمن کو چالوں کا مقابلہ انکے لیے چال چل کر کرنا ہوگا۔
ارطغل کو جب بھی مصیبت پیش اتی ہے تو وہ اللہ سے التجا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے پیغام جاتا ہے کے اگر لیڈر بننا
ہی اور مسلم قوم کی رہنمائی کرنی ہے تو اللہ پر توکل کتنا ضروری ہے۔

سبق نمبر چھ
جنگی حکمت عملی۔
جو جنگی اصول اللہ کے نبی نے بتائے کہ 
پہلے پیغام بھیجا جاتا کے یا تو اسلام قبول کر لیں سرنڈر کردیا جائے اور جزیہ دے کر مسلم حکومت کے زیرِ اثر رہیں۔ہ
یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ ارطغل میں بھی اسی اصول کی عملی شکل دکھائی گئی ہے۔ 
جنگ کے دوران اور بعد میں عام شہریوں کو قتل کرنے سے اللہ کے نبی نے منع فرمایا ہے۔ ارطغل میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کے جب کسی شہر کو فتح کیا جاتا ہے تو ارطغل عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور شہریوں کو انکے حقوق دیے جاتے ہیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ کوئی ظالمانہ سلوک نہیں ہوتا۔ بلکہ شہر میں چرچ کو آباد دکھایا گیا ہے۔ کراچسار کا گورنر کریتوس ارطغل کے اسی رویے سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتا ہے۔

سبق نمبر سات
خوشی کے موقع پر طور طریقے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کے جب بھی شادی کا موقع ہوتا تو ارطغل کی جانب سے پورے قبیلے کے غریبوں کے لیے کھانا مفت کھانا، ہے گھروں کے لیے گھر، اور پھتے لباس والوں کے لیے نئے لباس کا حکم دیا جاتا تھا۔ کتنی خوبصورت اقتدار ہیں یے۔ کتنا پر اثر پیغام ہے ڈراما دیکھنے والوں کے لیے۔ 

سبق نمبر آٹھ
خواتین کا کردار۔
 ڈرامے میں مرد عورت کے کردار کو بڑا واضح دکھایا گیا ہے۔ارطغل اور مجاہدین کا کام قبیلے کو باہر سے محفوظ بنانا اور اللہ کا دین کو نافذ کرنے کے لیے سعی کرنا ہے۔ خواتین کا کام قبیلے کے اندر کے معاملات دیکھنا اور مردوں کی غیر موجودگی میں قبیلے کی حفاظت کرنا ہے۔ 
دکھایا گیا ہے کے عورت مشورہ دینے میں آزاد ہے لیکن فیصلہ سازی کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ ارطغل اپنی بیوی سے بہت پیار کرتے ہیں اُسکی ہر بات سنی جاتی ہے اور بڑا اچھا تعلق دکھایا گیا ہے لیکن حلیمہ سلطان جب اپنے خاوند کے فیصلے پر انگلی اٹھانے لگے تو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دی جاتی۔ قبیلے کی خواتین کی انچارج ارطغل کی ماں ہیں۔ قالین بنا کر بیچ کر آمدنی اکٹھی کی جاتی ہے۔ اور یہ سارا کام عورتیں کرتی ہیں۔ پورے قبیلے کی معیشت خواتین کے کندھے پر چلتی دکھائی دی ہے۔ ہر عورت خریداری میں آزاد ہے۔مرد اس پر پابندی نہیں لگاتا۔ اور بیرونی حملے کی صورت میں خواتین کو تلوار چلانے کا بھی ماہر دکھایا گیا ہے۔ الغرض خاندانی نظام کی ایک جھلک ملتی ہے۔ وہ خاندانی نظام جسے اج یہ کہہ کر کچلا جا رہا ہے کے جو کام مرد کر سکتا ہے وہ عورت بھی کر سکتی ہے۔ ارطغل ڈرامے میں یہ دکھایا گیا ہے کے ہاں عورت بھی ہر کام کر سکتی ہے لیکن کاموں کی تقسیم سے گھر چلتے ہیں۔ بلا ضرورت عورت مردوں کے کام نہیں کرتی لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تو سب خواتین مرد بن جاتی ہیں۔ 


 آخر میں یہ کہوں گا کہ یہ ڈراما لازمی دیکھیں۔ اس ڈرامے پر اور لکھنے بیٹھوں تو شاید پوری کتاب لکھی جائے۔ کیوں کے ڈراما موٹویشنل اور تربیتی ڈائیلاگ سے بھرا پڑا ہے۔ لیکن ابھی کے لیے اتنا کافی ہے۔ 





Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل