خود شناسی
خود آگاہی کے راستے پر چل نکلنے والے کو اپنی زندگی میں پیش انے والے سب مسائل کا ادراک، اُنکی وجہ، اور اُن مسایل سے نکلنے کا حل پتہ ہوتا ہے۔
اب آگلی منزل ہوتی ہے عمل کی۔ طریقہ کار کی۔ آغاز کرنے کی۔ یہ اصل مشکل مرحلہ ہے۔
اسکی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو اُسکی جسمانی بیماری کی وجہ پتہ لگ جائے، دوائی خرید کر لے ائے اور اُسے فریج میں لا کر رکھ دے اور پھر بیڈ پر لیٹ جائے۔ اب جب تک خود اٹھ کے دوائی کو اسکے مقرر کیے ہوئے وقت پر نھی کھائے گا ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اور بیماری کی شدّت بیڈ سے اٹھنے نھی دیتی۔
اسی طرح خود آگاہی کی مثال ہے۔ خود آگاہی کے عمل سے پتہ لگ گیا کے زندگی میں وقت کا ضیاع ایسی بیماری ہے جسکی وجہ سے زندگی میں سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ معلومات میں اضافہ نھی ہوتا۔ غیر ضروری سرگرمیوں کی وجہ سے نئی نئی کارآمد چیزیں نھی سیکھ پاتے۔ مزید تحقیق کی تو پتہ لگا کے اسکا علاج ہے کے زندگی سے انرجی ڈرین کرنے ولی سرگرمیاں ختم کی جائیں۔ فیسبوک پر بحث مباحثہ ختم کیا جائے۔ یوٹیوب پر وقت کو ضائع کرنے والی انٹرٹنمںٹ ویڈیو دیکھنا ختم کیا جائے۔ کوئی کتاب پڑھنی شروع کی جائے۔ اس سب کے باوجود عمل نہیں ہو پا رہا۔ تشخیص بھی ہو گئی تھی۔ علاج بھی پتہ لگ گیا۔ لیکن عمل نھی ہو پا رہا تو بات کچھ وہی جسمانی بیماری والی بنتی ہے کے اُس میں بیماری کی شدّت فریج تک نھی جانے دے رہی تھی اور اس بیماری میں بھی علاج پتہ ہے لیکن عمل نھی ہو پا رہا۔
دنیا میں تین طرح کے لوگ ہیں۔
ایک وہ جو اس بیماری کے ساتھ ہی جی رہے ہیں جنکو نھی پتہ کہ دنیا کی سب سے قیمتی شے انسان کا وقت ہے۔ جو وہ فالتو کی سرگرمیوں (فیسبوک پر بحث مباحثہ، جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ، سیاست مذہب پر لڑائی، وغیرہ) میں ضائع کرتے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جنکو پتہ ہے کے وقت ضایع کرنے کی بیماری کا وہ شکار ہیں لیکن انہیں خود آگاہی کا عمل اتنا مضبوط نھی کے وقت ضایع نہ کرنے کا علاج ڈھونڈھ پائیں۔ اُنہیں وقتی طور پر کوئی موٹویٹڈ بندہ اچھی بات بتا دے تو وہ چارج ہو جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد پھر مزاج ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو اتنے خود شناس ہیں کے اپنی وقت ضائع کرنے کی بیماری بھی پہنچانے ہوئے ہیں۔ اسکا علاج بھی جانتے ہیں دوائی بھی جانتے ہیں۔ لیکن دوا استعمال کرنے کی ہمت نہیں۔ دوا لینے لگتے ہیں لیکن بیماری زور مارتی ہے۔ مثلاً اچھا لیٹریچر پڑھنے لگتے ہیں پر دل نھی لگ پاتا۔ بحث مباحثہ چھوڑنے لگتے ہیں پر طبیت مائل ہو جاتی ہے۔
ذرا سوچیں آپ کس کیٹیگری میں ہیں۔ پھر فیصلہ کریں کے آپکا علاج کیا ہے۔
Comments
Post a Comment