ٹسل
پاکستان میں لبرلزم اور مذہبی طبقے میں ہمیشہ ایک ٹسل پائی
جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کو بنانے میں اہم کردار
والے رہنماؤں جن میں محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نام منفرد ہیں کی سوچ یہی
تھی کے پاکستان اللہ کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور اسکا آئین قرآن و سنت کے
حکم کے مطابق ہوگا۔اس ملک کی معیشت سود سے پاک چلے گی۔ اس ملک میں امیر غریب سب
برابر ہوں گے کیوں کے قرآن نے فضیلت کے معیار تقویٰ کو رکھا ہے۔ اس ملک میں
اقلیتوں کو برابر شہری حق دیا جائے گا جیسے کے ریاست مدینہ میں اللہ کے نبی نے دیے
تھے اور ایک مسلمان بھی یہودی سے قاضی وقت کے سامنے مقدمہ ہار جایا کرتا تھا۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کے
کسی بھی قوم کو چاہئے مذہبی بنیاد پر قائم کرنا ہو یہ سیکولر بنیاد پر جب تک اس
قوم میں قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہوگا وہاں مذہب یا سیکولر نظریات شک کا شکار
رہے گے۔ قانون کی کمزوری کی وجہ سے لوگ جب کسی غلط کام میں ملوث ہوں گے تو لوگ اسے
مذہب یہ سیکولرزم کی تعلیم سے تعبیر کریں گے۔
یہی حال پاکستان کا ہوا۔
یہاں پر دستور تو قرآن و سنت کو مان لیا گیا۔مگر اُسکی عملی تصویر اس لیے نہ نظر آ
سکی کیوں کے ملک کے اندر قانون کو نافذ کرنے والے ادارے کمزور ہو گئے۔ پولیس کو
سیاسی بھرتیاں کر کے کمزور کردیا گیا۔ سیاسی جلسوں کی سیکیورٹی پر قانون کے
رکھوالے مصروف کر دیے گئے تو کبھی پروٹوکول کے نام پر سیاسی رہنماؤں کے گھروں کے
سامنے ڈیوٹی لگا دی گئی۔عدالتوں کے منصف کبھی موت کے ڈر سے چپ کرا دیے گئے تو کبھی
رشوت کے ذریعے خرید لیے گئے۔ وکلاء اور جج حضرات نے اس عدالتی نظام کو اتنا مشکل
بنا دیا کے ایک تو انصاف غریب اور امیر کے لیے الگ الگ ہو گیا اور دوسرا پیشیاں
بھگت بھگت کر عمر بیت جانے لگی پر انصاف نہ ملا۔
جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر
لوگوں کے اندر سے ہی کچھ لوگ دوسروں کو نہ حق قتل کرنے لگے۔تو اسکا ملبہ اسلام پر
ڈال دیا گیا کے دیکھیں اس شخص کے چہرے پر داڑھی تھی اور اس نے قتل کیا تو دین
اسلام قصور وار ہے۔ گھروں میں عورتوں پر تیزاب گردي کے واقعے رپورٹ ہوئے تو تشریح
کی گئی کے مذہب نے عورتوں کو قید کردیا ہے گھروں تک اس لیے یہ ظلم ہو رہا ہے۔
چھوٹی معصوم بچیوں کے ساتھ ریپ ہونے لگے تو الزام دیا جانے لگا کے پاکستان میں
عورت محفوظ نہیں ہے۔ اور ایسے واقعات کو انٹرنیشنل میڈیا تک این جی اوز نے رپورٹ
کیا اور تاثر پیدا کرنے کی کوشیش کی کے پاکستان میں مذہب نے عورت کو غیر محفوظ کر
دیا ہے۔حالاں کہ اگر حکومتی ادارے اپنا کام ٹھیک کرتے تو شاید یہ صورتحال کبھی
پیدا نہ ہوتی۔ اگر پہلے دن ہی ٹارگٹ کلر کو پھانسی دے دی جاتی، تیزاب پھینکنے والے
کو عمر قید کر دیا جاتا اور ریپ کرنے والی کو بھرے مجمع میں سنگسار کر دیا جاتا تو
کسی کی جرات نا ہوتی اس انتقام کو دیکھ کر ایسا کرنے کی۔
بات کو مختصر کرتا ہوئے عرض
کروں گا کے پاکستان میں مذہبی طبقہ اس بات کا شکوہ کرتا ہے کے قانون کی کمزوری سے
پیدا ہونے والی مسائل کو دین کی تعلیم سے تعبیر کرنے والے لبرل سیکولر لوگ اس بات
کو کیوں نہیں مدنظر رکھتے کے دنیا کی تاریخ میں اسلام جب کم بیش سات اٹھ صدیوں تک
اپنی اصلی حالت میں نافذ تھا ترقی تب بھی تھی، خوشحالی تب بھی تھی، لوگوں کا لائف
سٹائل تب بھی بہتر تھا۔
دنیا کی جدید سائنسی تعلیم
حاصل کر کے دنیاوی علم کی شمع روشن کرنے والے اور دنیا کی بہترین یونیوسٹیوں میں
پڑھانے والے پرویز ہود بھی کا حال ہی میں ایک لیکچر سنا جس میں اُنہوں نے کھل کے
کہا کے مذہب کو حکمرانی سے علحیدہ کرکے ہی ترقی ہو گی جیسے بنگلہ دیش نے کیا۔ اس
بات کے پس پردہ کیا حقیقت ہے اللہ جانتا ہے مگر حیرانی اس بات پر ہے کے وہ کون سے
اسلام کے کمزور نظریات ہیں کے جن کی بنیاد پر اس بات کو کہا جا سکتا ہے۔ سود جیسے
معاملات میں تو بات بلکل واضع ہے اسکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اور معیشت
چلانے کے سب اصول اللہ نے واضع کر دیے ہیں۔تو کوئی اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کے اکنامی
مضبوط کرنے کے لیے مذہب کو سیاست سے الگ کر دو تو یہ دیوانے کا خواب سمجھا جائے
گا۔ لہٰذا سیکولر نظریات تو اپنی موت آپ مر جاتے ہیں جب اللہ کا دیا ہوا نظام ملکی
معیشت چلانے میں نافذ ہو جائے اور کامیابی سے اُسکی شکل دنیا کو دیکھا دی جائے۔
جیسا کہ مسلم دنیا میں کئی صدیوں تک ہوتا ایا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کے وہ
کون سے فیکٹرز ہیں جسکی بنیاد پر پاکستان میں لبرلزم اور مذہب کی تکرار ہوتی ہے۔
اُن میں سب سے اہم عورت کی آزادی کا ٹاپک ہے۔ تھوڑی علمی تحقیق کرنے کے بعد میں اس
نتیجے پر پہنچا کے اس میں اسلام کی کمزوری نھی اسلام کو نافذ کرنے والوں کی کمزروی
ہے۔ جس کی غلط تشریح کر کے لوگوں کو خاص کر نوجوان نسل کو دین کا باغی کیا جا رہا
ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں
اسلام کو پھیلانے کا کام صوفیاء نے کیا ہے۔ اور فتویٰ اور تقویٰ میں سے صوفیاء اور
اولیاء اللہ کا ہمیشہ سے تقویٰ پر اتفاق رہا ہے۔ آسان الفاظ میں اسے سمجھ لیں کے
تقویٰ یہ ہے کہ اگر بارش کا سڑک پر کھڑا پانی کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑے بدل کے
نماز پڑھیں جب کے فتویٰ یہ ہے کہ کپڑا ناپاک نھی ہوا نماز پڑھائی جاتی سکتی ہے۔سب
سے زیادہ لبرلزم عورت کے حقوق کے نام پر اُسکی آزادی کی بات کو لے کر مذہب کے ساتھ
تکرار کرتا ہے۔
اس تکرار کی کیا وجوہات ہیں
اور اسکا حل کیا ہے انشاءاللہ آگلی تحریر میں آپکی نظر کروں گا۔
Comments
Post a Comment