حُب رسول
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔
میں کوئی عالم دین نہیں نہ کوئی مبلغ اور واعظ کرنے والا ہوں۔میں بھی آپ ہی کی طرح دنیاوی تعلیم کے حصول کا طالب اور اس فانی زندگی میں مصروف عمل ایک گنہگار انسان ہوں۔ یہ جو آج یہاں پر آپ کے سامنے اللہ اور اسکے رسول کے ذکر کا موقع مل رہا ہے یہ سب اُس سوچ کی بدولت ہے جو االلہ کے ایک نیک بندے کی صحبت میں بیٹھنے سے نصیب ہوئی اور اللہ پاک نے اپنے اس نیک بندے کی کمپنی کی بدولت میرے اندر بھی عشق رسول اور خوف خدا کی شمع روشن کر دی۔
خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر پیارے آقا نے فرمایا کہ آج کے دن تم پر اپنا دین مکمل کردیا اور اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا۔ اس خطبہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کے اب اصلاح امت کا کام کرنے کے لیے انبیاء کا رول مکمل ھوا اب یہ ذمےداری مسلمانوں پر اتی ہے کے وہ اپنے اندر علماء پیدا کریں فقہاء پیدا کریں۔ صالحین متقین لوگوں کے پاس بیٹھ کر دين سیکھا کریں۔ہم نے کیا کیا، نا تو خود دین سیکھا نہ اللہ کے نیک صالحین بندوں کی صحبت اختیار کی۔ نتیجہ کیا نکلا آج ہم نام کے مسلمان رہ گئے۔ ہمارے اندر سے روح بلالی نکل گئی۔ اقبال نے کیا خوب کہا۔
رسمِ اذاں رہ گی روح بلالی نہ رہی۔
وہ مسلمان جس نے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا تھا آج وہ خد سکون سے بے سکون ہو کر رہ گیا۔ دنیا میں اگر کوئی قوم اس وقت سب سے زیادہ رسوا ہو رہی ہے تو و مسلمان ہی ہے۔ کشمیر فلسطن برما افغانستان شام ہر جگہ مسلمان کا ہی خون بہایا جا رہا ہے۔ اس زوال کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے درے رسول سے دوری۔ مسلمان ہونے کی تو شرط ہی یہ ہے کے اپنی مرضی چھوڑ کر اللہ کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنا لینا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں مسلمان حب رسول کے بنا کبھی کامیاب ہوا ہی نہیں۔
صحابہ بھی ہماری طرح عام انسان تھے کوئی کوئی تھے اپنے قبیلے کہ سردار اکثریت غرباء کی تھی۔لیکن جب نبی سے لو لگائی پھر دیکھیں کیسے نام چمک گئے۔
حضرت عمر فرماتے ایک بار غلام کے ساتھ سفر پر تھے وادی تمامہ کے پاس سے گزرے تو ایک جگہ رک کر خوب رویے اور فرمایا کہ یہ و جگہ ہے جہاں ایک بار میرے باپ خطاب نے مجھے 5 اونٹ دیے تھے کے عمر انہیں لائن میں کھڑا کر کے دکھاؤ۔ میں ایک اونٹ کھڑا کرتا تھا دوسرا نکل جاتا تھا لائن سے۔ میری باپ نے مجھے خوب مارا کے ایک عرب کے بیٹے ہو کر پانچ اونٹ نہیں لائن میں کھڑے کر سکتے۔ یہ کہ کے حضرت عمر رونے لگے اور پھر فرمایا کے ایک و وقت تھا کہ عمر سے پانچ اونٹ لائن میں نہیں کھڑے ھوتے تھے اور آج آدھی دنیا پر عمر کی حکومت ہے۔ یہ محمد عربی کے قدموں کا صدقا نہیں تو اور کیا ہے۔
آج لوگ کہتے ہیں کے ہمارا نماز پڑھنے کا دل نہیں کرتا جو پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کے پڑھتے ضرور ہیں پر دل نہیں لگتا پڑھنے میں۔ میں کہتا ہوں دل لگے کیسے جب نماز کو بوجھ سمجھ کے پڑھ رہے ہو۔ اکثر نوجوان کہتے ہیں کہ نیک ہونا چاہتے ہیں پر نیکی میں دل نہیں لگتا۔ تنگ آ جاتے ہیں اس روزمرہ کی زندگی کے معمول سے کے صبح نوکری پر گئے شام کو گھر آ گئے۔ بس بیوی بچے اور دنیا کا دھوکہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔کوئی راستہ نظر نہیں اتا۔دعا کرتے ہیں پر سنی نہیں جاتی۔
میں کہتا ہوں اؤ میں تمہیں راستہ بتاتا ہوں ایسا راستہ جس پر کبھی پسپائی نہیں۔ دنیا داروں سے دل لگاتے ہو دھوکہ دے جاتے ہیں۔اؤ میرے رسول کہ ساتھ دل لگاؤ اُنکے ساتھ وفا کر کہ دیکھو۔یہ وُہ راستہ ہے جسکا پتہ خد اللہ نے صحابہ کو بتایا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے میرے حبیب انسے که دیجئے اگر اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو میرے محبوب کے دربار میں آ جاؤ میں تمہارے سارے گناہ معاف کر دوں گا۔
پڑھنا شروع کریں اپنی نبی کی سیرت طیبہ۔دیکھیں کس طرح اس دین کا پیغام لے کر آئے۔ایک ایک شخص کو سمجھانا شروع کیا۔ اپنے ہی مخالف ہونا شروع ہو گئے۔ ہم تو کسی کو حق بات بتاتے ڈرتے ہیں کے کہیں ناراض نہ ہو جائے۔دین کی دعوت دیتے ہوئے ایک دوسرے کو شرم محسوس کرتے ہیں۔لوگ کیا کہیں گے اوۓ تو نماز کا پابند ہو گیا ہے۔ نبی کے تو اپنے ہی جّان کے دشمن بن گئے تھے۔ اذیتوں کا نا رکنے والا سلسلہ تھا جو شروع ہو گیا۔طائف کے پہاڑوں میں پتھر کھائے۔ لہو لہان ہو گئے۔جبرائیل تک نے آ کر کہا یہ رسول اللہ آپ حکم فرمائیں میں انکو طائف کی پہاڑوں کے بیچ کچل دوں۔ پر میرے آقا نے فرمایا نہیں جبرائیل انکی نسلوں میں سے اللہ کے دین کا نام لینے والے پیدا ہوں گے۔اتنا صبر اتنا عزم کس کے لیے۔اس امت کے لیے کے یہ جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بنیں۔ میری امت اس غضب سے بچ جائے۔
لوگوں نے کمر پر اوجھڑی تک پھینکیں۔اللہ ہو اکبر۔
اور آج ہم نے کیا حق ادا کیا نبی کی ان محبتوں کا۔ ہمارے لیے تو نبی جیسا چہرہ بننا ہی مشکل ہو گیا۔ دنیا میں کسی سے محبت ہو جائے تو لوگ اس جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ عشقِ مجازی میں مدہوش نوجوان سارا سارا دِن موبائل پر چت چات میں گزار دیتا ہے۔ پر جب نبی کے عشق کی باری آتی ہے تو کہتا ہے بس فرض پورے کر لو باقی خیر ہے۔
نہ بھی فارمولا اُلٹا لگا لیا تو نے۔ فرض پورے کرنے کا حکم تمہیں کس نے دیا۔ براہِ راست اللہ تو نھی ملا تمہیں۔ نہ اللہ کی وحی آئی تم پر۔تمہارے تو سارے سودے ہیں ہی نبی کے ساتھ۔ نبی نے کہا اللہ ایک ہے تم نے مانا اللہ ایک ہے۔نبی نے کہا مرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے تم نے مانا کے ہاں اٹھنا ہے۔ جب نبی کی زبان سے ہی دین ملا ہے تو اس ذات سے عشق کیوں نھی کرتے۔
نبی کا عشق ہی تمہیں فرائض پڑھائے گا۔نبی سے محبت ہی تمہیں اللہ سے ملوائے گی۔ یقین نہ آئے تو صحابہ کی زندگی پڑھو۔جسکا جتنا نبی سے تعلق مضبوط ہوا اتنا اس صحابی کو مرتبہ ملا۔ ورنہ نمازیں تو سب پڑھتے تھی۔ فرائض تو سب پورے کرتے تھے۔ پر صدیقِ اکبر ہر کوئی نھی بنا۔
اللہ ہم سب کو اپنے نبی کا سچا عشق نصیب فرمائے اور ذکر رسول کی محفلوں میں بیٹھنے کی توفیق دے۔
Comments
Post a Comment