Posts

Showing posts from March, 2020

کورونا کے مثبت اثرات

Image
Depiction of a True Muslim محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں ۔پیشے کے اعتبار سے میڈیکل کالج میں لیکچرر تھیں ۔  انکے گھر کے ایک طرف ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا گھر تھا۔ گھر کے دوسری طرف ایک علامہ صاحب رہتے تھے۔ گھر کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک علامہ ڈاکٹر رہتے تھے۔ انہوں نے پہلے الیکٹریکل انجینرنگ میں پی ایچ ڈی کی اور پھر آٹھ سال کا درس نظامی کا کورس کیا۔ یوں یہ دنیاوی علم کے ڈاکٹر اور دینی علم کے علامہ تھے۔ ایک روز خاتون کے گھر چوری ہو گئی۔ ہم بھی اماں کے ساتھ انکے ہاں افسوس کرنے چلے گئے۔ہماری موجودگی میں ہی پہلے علامہ صاحب آئے اُنسے افسوس کرنے کے لیے۔ کچھ دیر گفتگو کی اور کہا کے بی بی اللہ پاک کی یہی مرضی تھی۔ جو ہوتا ہے اُسکی مرضی سے ہوتا ہے۔اللہ پر یقین رکھیں اور گھر پر ائتل کرسی  پھونک کر باہر جائیں تو گھر محفوظ رہتا ہے انکے جاتے ہی ڈاکٹر صاحب آ گئے۔ وہ بھی کچھ دیر باتیں کر کے تسلّی دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اور جاتے ہوئے کہنے لگے  آپ کے گھر کا لاک بڑی آسانی سے کھول لیا چور نے اس لیے چوری ہوئی۔ اچھے والے لاک لگوائیں۔ آپکو سیکورٹی کیمرے کی بھی ضر...

ریاست عوام اور رویے

Image
کہا جاتا ہے کے ایک وقت تھا جب ایک قبیلے سے کوئی شخص مہمان بن کر دوسرے قبیلے میں قیام پذیر ہوتا تو مہمان  نوازی کا یہ عالم تھا کے مہمان اگر مجرم بھی ہو تو اسے واپس اپنے قبیلے کے حوالے نھی کیا جاتا تھا۔ اپنے پاس ٹھہرے مہمان کے لیے لوگ دوسرے قبیلوں سے ٹکر جایا کرتے تھے۔ جسکی ایک شکل ارتغل ڈرامے میں دیکھنے کو ملی۔ جب حلیمہ سلطان کو تحفظ دینے اُرتغل کے والد سلیمان شاہ نے جنگ کا اعلان کردیا۔ اور ایک اج کا دور ہے کے ریاست اپنے ہی شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے حقوق مانگنے سے بات شروع ہو کر علحیدگی پسند تحریکوں میں بدل جاتا کرتی ہے۔ ظاہر ہے ریاست جب بحیثیت ماں اپنے بچوں کے تحفظ میں ناکام ہو جائے تو اولاد کے رویے بھی بدل جاتا کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی شک نھی کے پاکستان میں اٹھنے والی ہر تحریک کو جنم دینے والی چیز ہمارے ریاستی اداروں کی کمزوری ہے۔ جس دن ریاستی ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے اپنے کام کرنے لگ گئے اس دِن عوام کے اندر سے احساس محرومی ختم ہو جائے گا۔  لکھنے کو تو اس نکتہ پر بہت سی باتیں ہیں۔ احساس محرومی اور حقوق کی پاما...

میرے شہر کے لوگ۔

Image
کچھ دنوں سے عورت مارچ پر بہت بحث سننے کو ملی۔ کچھ حضرات اس حد تک عورت مارچ کے مخالف دکھائی دیے کے اُنہیں ہر عمل میں بیرونی سازش دکھائی دی۔ عورت مارچ بےپردگی اور بے حیائی مارچ نظر آئے ، اپنی ثقافت کھو دینے کا ڈر انکو کھائے جانے لگا۔ کچھ لوگ اس حد تک عورت مارچ کے حامی نظر اے کے اُنہیں عورت کے ہر پروبلم کا ذمےدار معاشرے کا مرد اور اسکا حل صرف عورت مارچ میں نظر آنے لگا۔ وہ قانون کی کمزرویوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور عورت کی محرومیوں کو قانون سازی کی بجائے ایسی تحریک سے حل کرنا چاہنے لگے۔ کچھ لوگوں نے اس بارے میں خود کو نیوٹرل رکھا۔ وہ کسی بحث میں نھی پڑنا چاہتے۔ انکے نزدیک بس اپنی عورت کو اخلاق سے ڈیل کرنا اور اپنے گھر کی عورت کو سارے حقوق دینا ہی کافی ہے۔   ایسے سب نظریے دیکھنے کے بعد میں نے بھی سوچا کے معاشرے کے اس بدلتے رنگ و حال میں اپنا پارٹ پلے کیا جائے۔ میرا مقصد کسی بھی طرح کی کیٹیگری کے لوگوں کی سپورٹ کرنا یا تنقید کرنا نھی۔ کیوں کے اگر ہر طبقہ اپنے طریقے سے اپنی سوچ سے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے تو یہ اسکا حق ہے۔ کسی کے نظریات کو زبردستی نھی بدلا ...

سچ تو یہ ہے۔

Image
Haqooq ki jang es youth k sang, NA BABA NA کچھ دن پہلے ایک پرانے دوست عزت خان اور ثوبیہ سے ملاقات ہوئی۔سلام دعا کے بعد گفتگو کچھ لمبی ہو گئی۔ عزت خان کا گلا خراب تھا لیکن پھر بھی مسلسل بولتا رہا۔ثوبیہ نے پوچھا کہاں آوازیں لگا کر اے ہو تو موصوف نے فرمایا" عورت مارچ میں گیا تھا۔خواتین کے حقوق کی آوازیں لگا لگا کر گلا اپنے حقوق سے محروم ہو گیا ہے " اس سے پہلے میں کچھ بولتا ثوبیہ نے پوچھ لیا " اے میری قوم کے حقوق نسواں کے محافظ،میں لڑکی ہو کر ایسے مارچ میں نھی جاتی تو لڑکا ہو کر کن کاموں میں لگا ہے؟ " وہ ہنستے ہوئے بولا " بھلا تمہیں جانے کی کیا ضرورت، تم لڑکی کم لڑکا زادہ دکھتی ہو۔ تمہارا ابّا امیر آدمی ہے۔ تم خود پیسے والی۔ بھلا تمہیں کیا ضرورت حقوق مانگنے کی۔ تم تو حقوق چھیننے والوں میں سے ہو " میں نے کہا " اچھا تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کے عورت مارچ صرف غریبوں کے لیے ہے " عزت خان ہنستے ہوئےبولا " ارے نھی بھئی یہ مطلب نھی تھا میرا " آج تو تم اپنا مطلب سمجھا ہی دو۔ میں اج نھی اٹھنے والی تمہارا موقف سنے بنا کے ...

کیپسول ‏

Image
کچھ دن پہلے ایک کافی شاپ پر انجانے میں ٹکر لگ گئی۔ چونکہ غلطی میری تھی اس لئے خیال آیا کہ ابھی ٹکر کھانے والے کی طرف سے لفظوں کی گولا باری شروع ہو گی مگر ایسا نہ ہوا۔ ذرا ہوش سنبھالا تو ایک آواز آئی ایم سوری . پہلے تو اس کے اس شائستہ رویے پر حیرانی ہوئی پھر خود کو ہلکا سا تھپڑ مارا اور جھنجوڑا کے کہیں میں خواب تو نھی دیکھ رہا۔ غلطی میری ہے اور سوری ٹکر کھانے والی کر رہی ہے۔ خیر کپ اٹھایا،کپڑے صاف کیے اور مصنوئی ہنسی کے ساتھ اندر چھپی شرمندگی کو کور کیا۔ میز پر بیٹھا لپتوپ آن کیا ایک كال ریسیو کی اور سوچا نیا کپ لے کر اتا ہوں۔اتنے میں نظر لپتوپ سے اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کے وہ خلقِ خدا ہاتھ میں کافی کا کپ لیے میری ہی طرف رواں دواں ہے۔ حیرت سے آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی خیال چلنے لگے تھے۔ وہ قریب ای اور بڑے اخلاق سے کافی دیتے ہوئے بولی یہ کافی آپکے لیے ہے اور یہ ایک لیٹر بھی وہ تو یہ کہہ کر لیٹر تھما کر چلی گئی لیکن میرے خیالوں میں تو اس خاتون کے ساتھ اگلے چالیس سال کی زندگی کا نقشا کھنچ چکا تھا۔ کافی کا سپ لیا اور خوشی سے لفافہ کھول کر پڑھنا شروع کیا تو س...

جذباتی خوراک

Image
زندگی کا خلاصا اس کے سوا کچھ نہیں کے بس انسان کو اطمینان قلب چاہئے۔ آپ کسی بھی نظریے کی سوچ رکھتے ہوں چاہے مذہبی یا مذہب سے آزاد ،سکون اور دل کا قرار ہی آپکی انتہاء طلب ہوگی۔ دنیا میں ڈاکٹر کہلاتے ہیں تعلیم امریکہ سے حاصل کی ہے آمدنی اتنی زادہ ہے کے مزدور کی تنخہ سے زادہ پیسے بچوں کی تعلیم اور شوق پورے کرنے پر لگا دیتے ہیں لیکن اس سبکے باوجود اگر آپکا دل مطمئن نہیں تو بمعنی ہے نہ یہ سب۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پھول ہے لیکن خوشبو نھی ہے۔ گھر ہے لیکن آباد کرنے والے نھی ہیں۔ کھانا ہے لیکن لذت نھی ہے۔ اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کے پڑھنا نھی ہے دولت نھی کمانی اگر نہ گھر ہو نہ پیسہ ہو نہ بنیادی خرچے پورے ہوتے ہوں۔ نہ شہرت ہو نہ جان پہچان۔ نہ مشکل وقت میں کام انے والے دوست ہوں نہ خود کسی کی پریشانی دور کرنے کے قابل ہو اور دل بھی مطمئین نہ ہو تب تو زادہ نقصان ہے۔ دانیشوری کو مختصر کروں تو عرض یہ ہے کے اپنے دلوں کا سکون تلاش کرنے کو اپنی پہلی منزل رکھیے۔اصل زندگی یہی ہے۔ موٹیویشل سپیکرز کو سن کر اپنی زندگی میں مشکلات پیدا مت کریں۔ اب اسکا مطلب یہ نہیں کے اُنہیں بلکل نھی سُنا۔ موٹیویشن کی زاد...

یہ اتنا تو قابل نھی تھا

Image
یار یہ اتنا تو قابل نھی تھا ۔ یہ کیسے یہاں تک پہنچ گیا۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو میرے ذہن میں اس وقت آئے جب میں امریکا کی کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک رہبر کے طور پر اپنے سے ایک سال بعد انے والے طلبہ کو رہنمائی دینے کے بعد ہوٹل میں اپنی میز پر بیٹھ کر اپنے گزرے ہوئے پورے دن کا جائزہ لے رہا تھا۔ کون سی بات ایسی تھی جسکی ادائیگی کرنا ضروری تھی کون سے ایسے الفاظ تھے جو میری زبان سے کسی کے لیے تکلیف کا باعث بنے ہوں گے۔ جس شخص سے جیسے برتاؤ کرنے کا حق تھا کیا وہ ادا کیا۔ کسی کی عزت کرنے میں یہ کسی کو اہمیت دینے میں کوئی فرق تو نھی رہا۔ کیا کسی کو اپنی ذاتی ضرورت یا صرف مستقبل میں کام پڑنے کی غرض سے تو صرف میں نے اخلاق سے بات نہیں کی۔اور سب سے بڑھ کر جو بات میرے لیے توجہ کا مرکز رہتی ہے وُہ کسی کی دل آزاری کا خوف ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس بات پر حقُل یقین ہے کے کامیابی ناکامی دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے مگر خودشناسی کا یہ عمل جسے انگریزی میں سیلف اسسمینٹ کہا جاتا ہے در اصل میرے لیے کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس کی کمی جب تک ذات میں تھی تب تلک اپنی کمزوریوں کوتاہیوں اور خامیوں سے...