تنقید براے تنقید۔

 اس ملک کا ہر شخص اگر تنقید براے تنقید کی بجاے مخلصانہ راے دینا شروع کر دے تو شاید ریاست مدینہ کی بنیاد خود ہی ڈل جاے۔

مگر مجال ہے کہ مذہبی شخص کبھی لبرل بندے کی کسی صحیح بات کو صحیح کہہ دے یا کوی لبرل انسان کبھی مذھبی انسان کی اچھی بات کی تعریف کر دے۔

اقلیت کے ساتھ جب برا ہوتا ہے اور لبرل طبقہ انکی اواز بنتا ہےتو مذہبی لوگ یک ذبان ہو کر اسے اسلام کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔

ورک انوایرمنٹ میں خواتین کو ہراساں کرنے پر جب جائز  اواز اٹھتی ہے  تو شدیش مذھبی افراد کہتے ہیں کہ عورت گھر کی زینت ہے وہ باہر نکلے گی تو ایسا ہو گا اسے باہر مردوں کہ ساتھ کام نہیں کرنا چاہے۔ 

کچھ ایسی ہی مثال مذھب سے شدید بیزار پرویز صاحب کی ہے۔

انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر اس شخص کے خلاف لکھنا ہے جو مذھب سے لگاو رکھتا ہے۔ حیران مت ہویے۔ علامہ اقبال کی مخالفت میں انہوں نے پورے لیکچر دے رکھے ہیں جو میں خود سن چکا ہوں۔ عمران خان کی مخالفت میں یہ جتنا میڈیا میں دکھای دیتے ہیں اسکی وجہ بھی عمران کی مزھبی سوچ ہے۔


عمران جب بات کرتا ہے ریاست مدینہ کی تو اسکا مطلب یہ ھوتا ہے کہ ایسی ریاست جہاں

عورت کا استحصال نہ ہو

جہاں مرد عورت بچے سب کی جان مال ابرو محفوظ ہو۔

انصاف ایسا ہو کہ عام ادمی حکمرانوں کہ رشتہ دار سے مقدمہ جیت جاے۔

خزانہ کا منہ ہمیشہ غریب کہ لیے کھلا ہو۔

امیر غریب برار ٹیکس نہ دیتے ہوں

اقلیت قوم عزت کے ساتھ زندگی گزارے۔

دنیا کا کوی انسان ریاست مدینہ کہ اندر دیے جانے والے بنیادی انسانی حقوق سے اختلاف نہیں کر سکتا ماسواے اسکے جس کے نذدیک بنیادی حقوق کی تعریف یہ ہو کہ “بس ہم جو چاہیں ہمیں کرنے دیا جاے” 

اور ایسا صرف  مزھبی اور لبرل لوگوں میں نہی ہوتا ذرا سیاست کے ایوانوں کا حال دیکھ لیں۔ تین سال کہتے رہے کہ فوج عمران کو لای ہے فوج آئئن کے دایرے میں رہے۔ لیکن اب ڈی جی ای ایس ای کی تقرری کے موقع پر جب عمران نے فوج کو کہا کہ ائئن میں رہ کر ڈی جی کی تقرری کرو۔ پہلے تین نام وزیراعظم ھاوس کو بھیجو پھر بندہ فائنل کیا جاے گا تو کسی سییاسی مخالف میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوی کہ اس جمہوری ایکشن پر عمران کو سپورٹ کرتا۔ کیونکہ سیاست میں سب اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں عوام کی نھیں۔


Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل