ریپ ‏ہوتا ‏نہیں، ‏ریپ ‏پلتا ‏ہے

 کیا پاکستان میں جنسی زیادتی کی وجہ فہاشی ہے؟ 
اس جملے کی مخالفت کرنے والی عوام الناس کا موقف ہوتا ہے کے ترکی یورپ امریکا میں کونسا ریاست کی سطح پر مذہب نافذ ہے تو وہاں کیوں کوئی کسی دوسرے کی عزت پر حوس کی نظر نہیں ڈالتا۔ وہاں لباس کی کوئی قید نہیں۔ مختصر لباس پہن کر بھی عزتیں محفوظ ہیں۔
یہ دلیل اپنی جگہ بلکل صحیح اور سمجھ آنے والی ہے۔لیکن کچھ ادھوری ہے۔
جہاں آپکو مختصر لباس میں عزتیں محفوظ نظر آئیں وہاں آپکو یہ کیوں نہیں دکھا کے اُن ممالک میں شادی کی قیدو بند ہمارے معاشرے کی طرح نہیں۔ وہاں بلوغت کی عمر کے بعد جنسی جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کسی کو کیریئر بنانے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ وہاں اگر آپ کسی کو بتائیں کے تیس سال کی عمر تک آپ نے کبھی سیکس نہیں کیا۔سیکس تو دور کی بات یوں کہیں کے کسی لڑکے لڑکی کو ہاتھ تک نہیں لگایا تو یا تو وہ آپکو سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھے گا کے گویا آپ جیسا بیوقوف کوئی نہیں جو اس قربت سے خد کو محروم رکھیے ہوئے ہے یا ایک ہی لمحے میں آپکے قدموں میں گر کر آپکا مرید ہو جائے گا کے جیسے آپ جیسا سخت انسان دنیا میں کوئی نہیں۔
اُن ممالک میں سیکس کو ایک بنیادی حق سمجھا جاتا ہے جو ہر لڑکا لڑکی کو ایک مخصوص عمر کے بعد حاصل ہو جاتا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں سیکس ڈیزائر پورا کر لینے کے بعد کوئی کسی کی ٹانگوں پر چڑھے کپڑے کا سائز نہیں دیکھتا۔ اُنکا کلچر اُنہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کے وہ اگر ایک پارٹنر کے ساتھ خوش نہیں تو اسے چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کر لیں۔ وہاں کوئی کسی کے پہلے رشتے کو نہیں ٹٹولتا۔ نہ ہی مرد یہ سوچتا ہے کے اچھا پہلے تعلق تھا تو ٹوٹا کیوں۔ یہ لڑکی تو یقیناً عیب والی ہو گی اسی لیے شوہر نے چھوڑ دیا۔

ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں۔
شادی سے پہلے جنسی تعلق کی مذہب کی وجہ سے اجازت نہیں۔ بالغ بارہ سال کی عمر میں ہو گئے۔ اٹھارہ سال میں قانون نے شادی کی اجازت دے دی۔ لیکن اب کلچر نے انٹری ماری۔ زیور، بری، برات کا انتظام، مہمانوں کی فوج، اور لڑکی کے لئے جہیز کا بوجھ بھی آ گیا۔ لڑکے نے جب تک اچھی نوکری نہیں کرنی تب تک رشتا نہیں ملنا۔ ان سب چیزوں نے شادی لیٹ کردی اور عمر ہے کے بڑھتی جا رہی ہے۔ اب والدین کی طرف سے یہ امید کی جاتی ہے کے ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی جنسی خواھش پر مکمل کنٹرول رکھیں۔ کچھ کو مذہب سے لگاؤ کی تلقین کر کے دبایا جاتا ہے۔ کچھ کو والدین کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے غلط حرکات سے بچنا پڑتا ہے۔ لیکن کروڑوں آبادی والے ملک میں سے ہر نوجوان تو ایسے مذہب اور کلچر کی نہیں سنتا۔ اورجو سنتا ہے اور بچنا بھی چاہتا ہے تو وہاں پھر اسکو یہ فہاشی نہیں بچنے دیتی۔ صبح کے مارننگ شو سے لیکر رات کے ڈرامے تک، سڑک پر لگے بورڈ پر صابن کی ایڈ سے لیکر بازار میں لگے پوسٹرز تک، ہر جگہ عورت کو بیچا جا رہا ہوتا ہے۔ ٹی وی ڈراموں میں انٹرٹینمنٹ کے نام پر لڑکا لڑکی کو بغل گیر کیا جاتا ہے۔ فلموں میں عورت کے پیچھے پوری سوسائٹی کے مردوں کو مرتا دکھایا جاتا ہے۔ ایسی انٹرنمنٹ وہ معاشرہ تو برداشت کر جاتا ہے جہاں بلوغت کے بعد ہر بندہ بندی اپنے اپنے پارٹنر کے ساتھ زندگی کی بہاریں دیکھ رہا ہو۔ لیکن ایسا معاشرہ جہاں مذہب، کلچر، خاندانی نظام، شرمو حیا، معاشرتی پابندیوں، کی وجہ سے اس رشتے کو قائم کرنے میں دیر کی جاتی ہو وہاں یہ فرسٹریشن معاشرے میں جرم بن کر اُبلتی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کے اس جرم کو جائز سمجھ لیا جائے۔ مگر برائی کی اصل جڑ کو ختم کیے بنا خالی مجرم سے نفرت کرنا انصاف نہیں۔ اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔اس لیے خالی فہاشی اس بڑھتے ہوئے ریپ کی وجہ نہیں۔ ریپ کی بنیاد کو تلاش کیجئے۔
  اصل میں ریپ ہوتا نہیں، ریپ پلتا ہے، سارا معاشرہ ملکر اسکو کو پلتا ہے۔ جب قانون کمزور اہو، مجرم کو سزا نہ ملے، عدالتی نظام مفلوج ہو، عوام کی رکھوالی پولیس مجرموں کی سرپرست ہو، سیاستدان اداروں کو اپنی باندی بنا کر رکھیں، شادی کو ایک مشکل عمل بنا دیا جائے، جنسی ضرورت اور خواہش پوری کرنے کے حلال طریقے پیچیدہ بنا دیے جائیں، اور ایسے معاشرے میں فہاشی کو بے لگام گھوڑے کی طرح کر دیا جائے تو اسے معاشرے میں ریپ ہوتا نہیں بلکہ پرورش پاتا ہے۔ اور ابلتے ہوئے گٹر کی طرح معاشرے میں وقتاً فوقتاً پھوٹتا رہتا ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل