Posts

Showing posts from June, 2020

سراغ ‏زندگیِ

Image
اچھا سنو، جب انسان کا مقصد بڑا ہوتا ہے نہ تو راستے کی چھوٹی مشکلات سے گھبرانا نھی چاہئے۔ اپنی زندگی کا ایک گول بناؤ۔ اس تک جانے کی لگن رکھو۔ بنا کسی گول کے زندگی کا سفر محض ایک مشقت ہے۔ ایسے سفر میں انسان لطف اندوز نھی ہو پاتا۔ جب منزل کا پتہ ہو تو انسان راستے کی مشکلات کا بھی حساب کتاب لگا لیتا ہے۔ جب تم ایک منزل کو ٹارگٹ کر کے زندگی بسر کرو گی تو تم لوگوں کے رویوں سے متاثر نہیں ہوا کرو گی۔ تمہاری آواز کے لہجے خود ہی بدل جائیں گے۔ اور زندگی میں انسان ایک مقصد وہ بناتا ہے جسکا اُسے خود کو فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر بننا ہے لکھاری بننا ہے کاروباری بندہ بننا ھے۔  دوسرا مقصد انسان کا وہ ہونا چاہئے جس سے وہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے۔ جو بنا کسی ذاتی فائدہ کے ہو۔ ایسا مقصد جو صرف اللہ کی مخلوق کے لیے ہو۔ جس سے نہ تو دل میں فائدے کی تمنّا ہو اور نہ دکھاوے کی۔ نہ لوگوں سے کوئی تعریف کی غرض ہو۔ وہ صرف اور صرف اللہ کی خاطر اُسکی مخلوق کے فائدے کے لیے ہو۔۔۔۔ مثال کے طور پر اللہ سے خواہش کرنا کے کے اتنا رزق دینا کے تیری مخلوق میں بانٹ سکوں۔  اتنا رزق دینا کے میرے شہر میں کوئی ب...

حُب ‏رسول

Image
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔  میں کوئی عالم دین نہیں نہ کوئی مبلغ اور واعظ کرنے والا ہوں۔میں بھی آپ ہی کی طرح دنیاوی تعلیم کے حصول کا طالب اور اس فانی زندگی میں مصروف عمل ایک گنہگار انسان ہوں۔ یہ جو آج یہاں پر آپ کے سامنے اللہ اور اسکے رسول کے ذکر کا موقع مل رہا ہے یہ سب اُس سوچ کی بدولت ہے جو االلہ کے ایک نیک بندے کی صحبت میں بیٹھنے سے نصیب ہوئی اور اللہ پاک نے اپنے اس نیک بندے کی کمپنی کی بدولت میرے اندر بھی عشق رسول اور خوف خدا کی شمع روشن کر دی۔  خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر پیارے آقا نے فرمایا کہ آج کے دن تم پر اپنا دین مکمل کردیا اور اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا۔ اس خطبہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کے اب اصلاح امت کا کام کرنے کے لیے انبیاء کا رول مکمل ھوا اب یہ ذمےداری مسلمانوں پر اتی ہے کے وہ اپنے اندر علماء پیدا کریں فقہاء پیدا کریں۔ صالحین متقین لوگوں کے پاس بیٹھ کر دين سیکھا کریں۔ہم نے کیا کیا، نا تو خود دین سیکھا نہ اللہ کے نیک صالحین بندوں کی صحبت اختیار کی۔ نتیجہ کیا نکلا آج ہم نام کے مسلمان رہ گئے۔ ہمارے اندر سے روح بلالی نکل گئی۔ اقبال نے کیا خوب کہا۔  ر...

فیصلہ کرنے کی صلاحیت

Image
  انسان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو اسکے مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے . بہت سے لوگ مشکل سے مشکل صورتحال میں اچھے بروقت فیصلے کر کے خود کو اس مُشکِل صورتحال سے نکال لیتے ہیں کچھ لوگ آخر وقت تک یہ نہیں طے کر پاتے كے ان کو کونسا رستہ اَپْنانا ہے . ضروری نہیں کہ ہر انسان كے اندر یہ خصوصیت پائی جاتی ہو۔ بہترین انسان وہ نہیں جس كے اندر قدرتی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہو اور وہ قدرت کی اس نعمت کو احسن طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے نئی راہیں ہموار کرتا جائے .بلکہ انسانیت کی معراج اس چیز میں ہے کہ جو صفت آپ كے اندر دوسری صفات کی نسبت کم پائی جاتی ہے آپ اسکو کو ڈیولپ کر لیں . گزرتے وقت كے ساتھ آپ اپنی زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات سے سیکھتے ہوئے اپنی گرومنگ کرتے جائیں اور خود كے اندر چھپی ہوئی صفات کو عملاً ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہیں . اسکی بڑی مثال گھر کی ہے . اگر گھر میں کوئی بچہ ہے وہ اپنے والدین کو دیکھتا ہے كے وہ ہر مشکل گھڑی کا بھی باسانی سامنا کر لیتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں. حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لیتے ہیں . اور اس فیصلے كے غلط ثابت ...

ٹسل

Image
  پاکستان میں لبرلزم اور مذہبی طبقے میں ہمیشہ ایک ٹسل پائی جاتی ہے   اس میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کو بنانے میں اہم کردار والے رہنماؤں جن میں محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نام منفرد ہیں کی سوچ یہی تھی کے پاکستان اللہ کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور اسکا آئین قرآن و سنت کے حکم کے مطابق ہوگا۔اس ملک کی معیشت سود سے پاک چلے گی۔ اس ملک میں امیر غریب سب برابر ہوں گے کیوں کے قرآن نے فضیلت کے معیار تقویٰ کو رکھا ہے۔ اس ملک میں اقلیتوں کو برابر شہری حق دیا جائے گا جیسے کے ریاست مدینہ میں اللہ کے نبی نے دیے تھے اور ایک مسلمان بھی یہودی سے قاضی وقت کے سامنے مقدمہ ہار جایا کرتا تھا۔ ایک بات ذہن نشین کر لیں کے کسی بھی قوم کو چاہئے مذہبی بنیاد پر قائم کرنا ہو یہ سیکولر بنیاد پر جب تک اس قوم میں قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہوگا وہاں مذہب یا سیکولر نظریات شک کا شکار رہے گے۔ قانون کی کمزوری کی وجہ سے لوگ جب کسی غلط کام میں ملوث ہوں گے تو لوگ اسے مذہب یہ سیکولرزم کی تعلیم سے تعبیر کریں گے۔ یہی حال پاکستان کا ہوا۔ یہاں پر دستور تو قرآن و سنت کو مان لیا گیا۔مگر اُسکی عملی تصویر اس لیے نہ...

اُمید ‏کے ‏دیے ‏

Image
زندگی میں آپکو اپنی نیچر پر قیام رہنا ہے . اچھی نیچر کا انسان ویسے ہی اس دنیا كے لیے باعث رحمت ہوتا ہے . مگر کبھی کبھی اچھی طبیعت كے اچھی عادات كے باوُجُود آپکا وجود دوسروں كے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے.  ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ آپکا عمل اچھا ہوتا ہے مگر اس عمل كے بَعْد آپکی امید اور توقعات کا بوجھ آپکے اس عمل کو آپکے لیے زہر بنا دیتا ہے۔  اسکی ایک عملی شکل ہاسٹل لائف ہے۔ یونیورسٹی لائف میں اگر آپ دوستوں كے ساتھ شیئرنگ میں رہتے ہیں اور فطرتاً آپکے اندر یہ خصوصیت ہے كے آپ ہر چیز شیئر کر کے كھانا پسند کرتے ہیں . اکیلے کھانے میں آپکو وہ مزا نہیں آتا۔ اور آپ ہر کھانے کے وقت اپنے ساتھیوں کو شامل کرنا پسند کرتے ہیں . یہاں تک دیکھا جائے تو سب صحیح ہے۔  آپکی یہ عادت انبیاء والی ہے . یہ آپکو روحانی عروج بھی دے گی اور دنیاوی عزتیں بھی. پر جب آپ دوسرے دوستوں سے بھی یہ امید کرنے لگتے ہیں کے وہ بھی آپکے ساتھ شیئر کر کے کھایا کریں گے تو اب گڑ بڑ شروع ہو گئی . نا چاہتے ہوئے آپ نے اپنے درمیان ایک دیوار پیدا کرنا شروع کر دی ہے. آپکی اس سوچ سے نیگیٹو انرجی نکلے گی و...