سیاست+عبادت=دین

 جو مدینہ میں ننگے پاوں چلا،  جس نے رحمت العالمین کانفرس کروای، جس نے اقوام متحدہ میں کھڑا ہو کر کہا کہ جب کوی ھمارے نبی کی شان میں غلط بات کرتا ہے تو ہمارا دل دکھتا ہے جس نے اسلاموفوبیا پر دنیا کہ سامنے مقدمہ لڑا جس نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی طرز پر پاکستان کوبنامے کی بات کی اس پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے مذھب کی توہین کی۔

اگر اوپر بیان کیے ہوے کاموں کہ بعد بھی اس شخص سے توہین اسلام جیسے سخت ناپسندیدہ کام کی امید کی جا سکتی ہے تو پھر میرے اور اپکے ایمان پر بھی کسی دن ایسا ھی الزام لگایا جا سکتا ہے۔

یہ گستاخ اور بے ادب کے سرٹیفیکیٹ جب سے بٹنا شروع ہوے ھیں اس ملک میں کوی محفوظ نھیں ھے۔ پہلے تو اقلیتوں کو اس الزام کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا اب یہ چنگاری مسلمانوں کہ اپنے گھروں تک پہنچ گئ ہے۔ جو علما اج بھی اس چنگاری کو بھجانے کہ لیے کوی کردار ادا نھیں کررہے اور چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں وہ اس لمحہ کی فکر کریں جب یہ چنگاری شعلہ بن کر ان کے مرکزوں کا رخ کرے گی۔

ایسے مواقع پر دیندار لوگوں کی جانبداری دیکھ کر دل بہت دکھی ہوتا ہے۔ سیاسی مقاصد کہ لیے ایک شخص پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تو بنا کسی سیاسی وابستگی کہ اسکا سد باب ہونا چاھیے۔ چاہے الزام لگانے والے اپکی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں یا نہیں، اپکو ایسا مذہبی الزام لگتے دیکھ کر خاموش نھیں رہنا چاہیے۔ 

اج عمران خان پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ اس کے کہنے پر مسجد نبوی کی توہین ہوی ہے تو کل کو کوی اس بات پر شہباز شریف کو مزہب کا توہین قرار دے دے گا کہ اس نے فرانسیسی صدر کو مبارک باد دی ہے صدر بننے پر۔ جبکہ فرانس میں تو خاکے شاعع کیے گئے تھے۔ 

ایسے مواقع پر علما کا مثبت کردار سامنے آنا چاہے ورنہ اس ملک میں کون عاشق رہے گا کون گستاخ اسکا فیصلہ سڑکوں پر لوگ ہی کرتے رہیں گے۔

ہمارے دین کی حکمت جزبات کے تلے دب کر کہیں کھو گئ ہے۔ منطق سمجھنے کو کوی تیار ہی نہیں۔ اختلاف راے رکھنا تو جیسے کفر بن گیا ہے- دلوں کی محبتیں، زبان کی شائستگی، اور اخلای اقدار کو بھی ہم نے تقسیم کر دیا ہے۔ اگر دوسرے بندے کا مزھبی فرقہ اور سیاسی وابستگی کسی دوسری پارٹی سے ہو تو ہم ایسے شخص سے دلی نفرت کرنے لگتے ہیں زبان سے گالم گلوچ کرتے ہیں اور بد اخلاقی کی حدیں توڑ دیتے ہیں۔   

انصار اور مہاجر کو بھای بھای بنا دینے کے بعد رسول اللہ نے قبیلہ کی بنیاد پر تفرقہ کے لیے سخت ناپسندیدگی فرمای 

 آج ہمارا حال کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر کسی بھی  مخالف شخص کو گستاخ، بے ادب، کافر، قادیانی اور یزیدی ہونے کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے میں ہم ذرا دیر نھیں لگاتے۔

 اس ضمن میں ممبر رسول کہ خدمت گاروں کو اپناسیاسی کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ دین صرف عبادات کا نام نہیں۔ عزتیں لٹ رہی ہوں، لوگ مذہب کہ نام پر قتل ہو رہے ہوں، معاشیی نظام سود پر چل رہا ہو، عدالتیں غیر شرعی سزایں دے رہیں ہوں،  دنیاوی تعلیم اور دینی تعلیم کو الگ کر دیا گیا ہو، عورت پر کلچر کی پابندیوں کو مذہبی پابندی بنا دیا گیا ہو،  ایسے ماحول میں لوگوں کو صرف عبادت کی طرف لگانے سے اپکا میرا فرض ادا نھیں ہو گا۔ کیونکہ جو مسئلے نضام کی تبدیلی سے حل ہونے والے ہیں وہ عبادت سے نھیں ہو گے۔ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ سے چھڑانے کہ لیے مظبوط خارجہ پالیسی چاہیے، ملک کو آی ایم سے ںجات دلانے کہ لیے مظبوط معاشی ہالیسی چاہیے، ملک کو فے ٹیف  کی گرے لسٹ سے نکالنے کہ لیے مظبوط  سیاسی معاشی خارجی پالیسیاں چاہیں۔ اور اگر صاحب ممبر یہ شعور عوام کو نھیں دے گا اور جب تک مدارس میں یہ دنیاوی سیاسی امور پر بحث و مباحثہ نھیں کرایا جایا گا تب تک پھر یہی حال ہو گا کہ سیاسی لوگ اپنے من پسند علما سے من پسند فتوع لیتے رہیںگے۔

Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل