اقامت دین


جب بھی دو لوگ ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں انہیں اپنے معاملات کے لیے کسی اصول کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیسے میاں بیوی کی مثال لیں تو ایک گھر کی ذمہ داری پوری کرتا ہے تو دوسرا پارٹنر باھر کے کام کا ذمہ لیتا ہے۔ اور ایکدوسرے کا خیال رکھ کر وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ امدنی کہ اندر دونوں برابر خرچہ کرتے ہیں۔ یہ نھی ہوتا کہ شوہر آمدنی میں سے خود اچھے کپڑے خرید لے اور پیچھے اتنے پیسے بھی نہ بچیں کہ عورت کھانا کھا سکے نہ ھی عورت اپنے بننے سورنے پر اتنے پیسے لگاتی کہ شوھر کہ لیے دوایاں خریدنے کہ پیسے نہ بچیں۔ اور نہ میاں بیوی وسائل کا ایسے استعمال کرتے ہیں کہ بچوں کہ لیے کچھ نہ بچے۔ اگر دونوں پارٹنرز میں سے ایک بھی دوسرے کا خیال کرنا بند کر دے تو وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شروع ہو جاتی ہے اور انتشار پھیلنے لگتا ہے۔ اگر شوہر کو دوستوں کہ ساتھ آوٹنگ زیادہ اھم لگنے لگے اور گھر والوں کہ لیے بنیادی ضرورت کہ پیسے نہ بچیں تو پھر ایک بغاوت جنم لیتی ہے۔ اور انتہای کشیدگی کے عالم میں ہاتھا پائ اور پھر علحیدگی تک بات آ جاتی ہے۔

الغرض ذمہ داری کا تعین کر کے کچھ اصول بنا کر ذندگی گزاری جاتی ہے۔ بنا اصول کہ پر امن زندگی کا حصول نا ممکن ہے

اسی طرح جب اس دنیا میں اربوں لوگ اکٹھے رہتے ہیں تب بھی ایک اصول ایک قاعدے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ظاھر ہے اربوں لوگوں کی راے مختلف ہوتی ہے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے ذہن کے مطابق اصول پیش کرتا ہے۔ اب یہاں پر تقسیم شروع ہو جاتی ھے ۔ کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ یہ دنیا ہماری بنای ہوی نھیں ہے ھم اس کے خالق نھیں ھیں تو اس میں رہنے کہ اصول ھم کیسے طے کر سکتے ہیں۔ وہ اس دنیا کے بنانے والے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ طے کر لیتے ہیں کہ اسی بنانے والے نے جو اصول ھمیں بتاے ہیں وہ بر حق ہیں اور ھم انھی کو مان کر اپنی ذاتی اور معاشری ذندگی گزاریں گے۔ ھم انھیں مذھبی لوگ کہتے ہیں۔

دوسری طرف وہ لوگ ھیں جو کسی خالق پر یقین نھی رکھتے اور اس دنیا کو مختلف طبعی تبدیلیوں سے بننے والی شے مانتے ہیں اور اپنے لیے خود اصول و ضوابط بناتے ہیں۔ ایسے لوگ ایتھست کہلانے لگتے ھیں۔

تیسرا طبقہ وہ ہے جو اس دنیا کہ خالق پر یقین تو رکھتا ہے لیکن اسکے بناے ہوے اصولوں پر نظام نھی چلانا چاھتا۔وہ سمجھتا ہے کہ خالق اپنی پہچان عبادت کی حد تک چاھتا ہے اور یہ ذمہ داری خالق نے ھمیں دی ھے کہ اپنے لیے اچھا سا نظام بنا کر رھنا شروع کر دیں۔ ایسے لوگ سیکولر کہلاتے ہیں۔ یہ انفرادی عبادت میں پورے نظر ا سکتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے اصولوں میں خالق کے دیے ہوے اصولوں کو نھی مانتے۔

اس طرح دنیا کی تقسیم تین طرح کہ لوگوں میں ھو جاتی ھے

مذھبی

ایتھیست

سیکولر

سیکولر طبقہ اصل میں ایتھست کی ہی ایک شاخ ہے. یہ ٹرم انیسویں صدی میں متعارف کروائی گئی.  اس لئے اس وقت تک  دو ہی بڑی سوچیں  نظر اتی ہیں. ایک مذہب کے نام پر اصول بنا کر رہنے والی سوچ  اور دوسرا انسانوں کے بناے ہوہے اصول کے مطابق زندگی گزآرنے والی سوچ.

انہی دو سوچوں کے ٹکرانے سے دنیا کے لوگ جنگوں میں پڑتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں- میری ناقص علم کے مطابق دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں انکے پیچھے انہی دو سوچوں کا ٹکراؤ رہا. اسکے علاوہ اٹھارویں صدی تک کوئی اور سوچ دنیا کے لوگوں کی تقسیم میں اس شدت سے کار فرما نہ رہی. 

مذھبی اور سیکولر بندوں میں ایک بات تو عام ھے کہ دونوں انفرادی عبادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ سیکولر حکومتیں عبادت گاھیں بنا کر دیتی ہیں سیکورٹی مہیا کرتی ہیں سالانہ تقریبات کہ مواقع آیں تو خود خوشیوں میں شریک ہوتی ہیں۔ مزھبی بندے کو بھی وہی بنیادی سہولتیں دیتی ہیں جو سیکولر بندہ کو ملتی ہیں۔ مذھب کہ نام پر کوی شہری غیر امتیازی سلوک کا شکار نھیں ہوتا۔ سب کو ترقی کرنے کا برابر موقع ملتا ہے۔

لیکن اختلاف اسی ایک بنیادی چیز پر اتا ہے جس کی مثال میں میاں بیوی کہ رشتے سے سمجھا چکا ہوں اور وہ ہے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول۔ جس پر دو بندے اپنے انفرادی نہی بلکہ باہمی معاملات طے کرتے ہیں۔ وہ اصول جس کی بنیاد پر نضام حکومت چلتا ہے۔

اگر خاص مذھب اسلام اور سیکولر حکومت کی بات کریں تو  سیکولر حکومت معاشی نظام انسانوں کے بناے ہوے اصول پر چلانا چاھتی ہے اور اسلامی حکومت خالق کے بناے ہوے اصولوں پر۔ سیکولر حکومت کا معاشی نظام سود پر چلتا ہے جبکہ اسلامی حکومت میں سود کی کوی گنجائش نہیں۔ 

سیکولر حکومت تمام لوگوں کو حق دیتی ہے کہ وہ جیسے چاہیں شادیاں کریں۔ مرد مرد سے اور عورت عورت سے تعلق بنا سکتی ہے جبکہ اسلامی حکومت ایسے تعلق کو کوی حیثیت نہیں دے سکتی۔ 

سیکولر حکومت جرائم کی روک تھام کہ لیے اپنے قانون خود بناتی ہے جبکہ اسلامی حکومت یہ قانون قران اور سنت سے اخز کرتی ہے۔

سیکولر حکومت کہ خاندانی نظام میں مرد عورت کو برابر کا تصور کر کے انکے لیے اصول مرتب کیے جاتے ہیں جبکہ اسلامی نظام میں خاندانی نظام کہ لیے واضح اشارے الہامی کتاب اور سنت رسول سے اخز کیے جاتے ہیں۔

سیکولر حکومت میں وراثت کی تقسیم انسانی قانون کہ مطابق ہے جبکہ اسلامی حکومت میں وراثت کا تعین بھی خالق کی مرضی والا استعمال کیا جاتا ھے۔

الغرض ایسے سینکڑوں اصول ہیں جن سے ایک سیکولر حکومت اسلامی نظام حکومت سے ٹکراتی ہے۔ 

دنیا کہ نقشے پر اسلامی نظام حکومت کامیابی کہ ساتھ رائج رہا۔ اور پچھلے دو سو سال میں امت مسلمہ کا اتحاد ٹوٹا- اور ایک خلافتی سلطنت مختلف ملکوں میں بٹ گئی۔

ایسی صورت حال میں جب بھی امت مسلمہ کے زوال کی وجہ تلاش کی جاتی ہے تو مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔ جو سب اپنی جگہ قابل احترام ہیں۔ اسی طرح مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں کہ کس طرح سے امت کو پھر یکجا کیا جا سکتا ہے۔ 

 لیکن سوچنے کا ایک اور انداز بھی ہے جس پر میرآ دل اور عقل باقی وجوہات سے زیادہ اچھے سے مطمین ہے اور اس تحریر میں اسی کا ایک پہلو شیئر کرنا مقصد ہے۔

میں سمجھتا ہوں اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اسلام کا پہلی بار اس دنیا پر غلبہ کیسے ہوا اور مختصر عرصے میں دنیا کے نقشے پر پہلے سے قائم مذاہب کے درمیان اپنی جگہ کیسے بنا گیا تو شاید دوبارہ عروج پانے کے ذرائع بھی مل جایں گے- 

۔ اس ضمن میں کوئی کہے گا کے یہ الله کا فیصلہ تھا کہ اسلام نے پھیلنا ہی پھیلنا تھا. کوئی کہے گا کے یہ سچا مذہب ہے کوئی کہے گا کے الله کے نبی نے شرہ صدر کر کے اسے مثالی لوگ لیڈر بنا دے جو ایمان کی طاقت سے مالا مال تھے. کوئی کہے گا کے اس وقت کے مسلمان عبادت میں پورے تھے. الغرض اس طرح کی بیشمار وجوہات سامنے آتی ہیں جو اپنی جگہ بلکل حق اور سچ ہیں.

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ 

ہر دور میں اسلام کا بہترین ساتھ اس فلسفہ نے دیا ہے جو لوگوں کی ضرورت سے مماثلت رکھتا ہو۔

مثال کہ طور پر عرب میں لوگ بیٹیوں سے حسن سلوک نہیں رکھتے تھے اسلام نے بیٹی کی تربیت کرنے والے کو جنت کا وارث بنا دیا۔ ماں کے روپ میں عورت کی تزلیل ہوتی تھی اسکے قدموں میں جنت کا لا رکھا۔ غلاموں پر ظلم ہوتا تھا توانکے حقوق متین کیے اورغلام آزاد کرنے پر آخرت میں بشارتیں سنا دیں۔ عرب کی مالی حالت اتنی زیادہ اچھی نہی تھی اسلام نے خیرات صدقات کو مسلمان کی زندگی میں بہترین انویسٹمنٹ بنا دیا اور زکات سے پیسے کی اسی گردش کروائی کے لوگوں کی معاشی ضرورت پوری ہونے لگے.  

رومی اور ایرانی اس وقت کی غالب اور سپر پاور قومیں تھیں لیکن وہاں کہ حکمرانوں نے رعایا کو بھاری ٹیکسوں تلے دبا رکھا تھا۔ جب بھی رومی ایرانی جنگ ہوتی تو فاتح قوم مفتوح کہ علاقوں پر قبضہ کے ساتھ ساتھ خواتین کے ریپ کرتے، بزرگ قتل کیے جاتے اوربچے غلام بن کربکتے۔اور فصلوں کو اگ لگا دی جاتی۔

اسلام نے جنگی کرائم پر پابندی لگای اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا۔ ان پر ٹیکس کا نظام انکی امدنی سے منصوب کر دیا جو کہ زکات کی شکل میں وصول ہوتا۔ جسکی جتنی امدنی اس پر اتنی زکات۔ جب کوی علاقہ فتح ہوتا تو رعایا کو مفتوح مسلمان قوم کے روپ میں مسیحا نظر اتا اور وہ اسلام قبول کرتے جاتے۔ 

یہ اسلام کے پھیلنے کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس وقت لوگوں کو اسلام منفرد دکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ بنا کسی زبانی تبلیغ کے بھی کھینچے چلے آتے تھے۔ 

اج ھم پھر اس مقام پر کھڑے ہیں کہ کفر کا غلبہ ہے۔ معاشی نظام بھی انکا ہے۔ تجارتی راستے انکے کنٹرول میں ہیں۔ اسلحہ انکے پاس جدید قسم کا ہے۔ مسلمان پھر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ صلح ہدیبیہ کا ماحول ہے کافر ملکوں کہ من پسند معاہدے (فےٹیف اور آی ایم اف کی صورت میں) کرنے پر اسلامی ملک مجبور ہیں۔ ایسی صورت حال میں پھر سے مسلم قوم کو دنیا کہ سامنے اسلام کی ایسی تشریح دینی ہے جو إس وقت کی ضرورت کہ عین مطابق ہو۔ جسے عام آدمی سے لیکر حکمران تک سب لوگ موزوں سمجھیں۔ کیونکہ اسلام رہتی دنیا تک لیے زندگی گزارنے کا کوڈ ہے تو ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ زمانہ آگے نکل جاے اور اسلام چودہ سو سال پہلے کی سی شکل میں پیش کیا جاے۔

میں چند مثالیں پیش کیے دیتا ہوں باقی کبھی الگ تحریر میں موزوں بحث لایں گے


۱-

اسلام کے ابتدائ دور میں عورت حقوق سے محروم تھی جو ایک ایکسٹریم تھی۔ اج سیکولر حکومتوں نے عورت کو مرد کہ برابر تصور کر کہ دوسری ایکسٹریم پر کھڑا کر دیا گیا ہے ہے۔ اسلام نے ابتدائ دور میں اس ایکسٹریم کو توڑا تو عام شہری کی زندگی میں تبدیلی آی اور معاشرہ آزاد ہوا۔ آج بھی اسلام کو اس برابری والی ایکسٹریم کو توڑ کر دکھانا ہے تا کہ معاشرہ مرد عورت کی ذمہ داری کا صحیح تعین کر کہ آگے بڑھے۔ ذرا سوچیں کہ اگر صوفیا کہ ایسے اقوال کو قانون بنا کر چلا جاے جیسے کہ پڑھنے والی جگہ خانہ کعبہ پڑھاے جانے والی کتاب قران پاک ہو تب بھی مرد عورت ایک ساتھ نھیں پڑھ سکتے تو لوگ کیسے اس دین کو آڈاپٹ کریں گے۔ یہ بھی ایک الگ ٹاپک ھے جسے اس تحریر میں بیان بیان کیا جا سکتا۔ مختصرآ یہ کہوں گا کہ اس گلوبل دنیا میں اپ اپگ نھی رہ سکتے مسلم قوم کے مرد عورت کفار کی اعلی اداروں میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اور انکے ملک میں نوکریاں کرتے ہیں۔ اپ ایسے کسی بندے کو یہ والا اسلام نھی سکھا سکتے کہ مرد عورت اکٹھے نھیں پڑھ سکتے۔ اس بات کا مقصد بزرگوں کے قول کی نفی نھیں ہے نہ ہی یہ غیر مرد عررت کہ ایک ساتھ پڑھنے کہ حق میں کوی بات ہے۔ بلکہ کہنے کا مقصد وقت کہ تقاضہ کے مطابق اس بیان کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

۲-

خاندانی نظام کی عدم دستیابی کہ باعث امریکی اور مغربی معاشرہ ایک بےچینی کا شکار ہے۔ ٹین ایج میں پریگنینسی اور پھر ابورشن ریٹ سب سے زیادہ ہے۔ دس دس سال اکٹھے رہ کر بھی شادی نھیں رجسٹرڈ ھوتی کیونکہ امریکہ میں انسانی قانون سازی کہ مطابق ادھی جائداد میں پارٹنر حصہ دار بنتا ہے اگر شادی رجسٹرڈ ہو۔

نظام معیشیت ایسا ہے کہ مرد عورت دونوں جاب کریں گے تو گھر کا خرچہ چلے گا۔ اس وجہ سے بچے پری اسکول میں تربیت پاتے ہیں۔ انشورنس کی پیمنٹس دے دے کر تنخواہ ختم ہو جاتی ہے۔ عام ادمی اگر کوی بڑی بیماری میں مبتلا ہو جاے تو علاج کا خرچہ ماہانہ قسطوں کی شکل میں ساری عمر جان نھی چھوڑتا۔ 

یہ وہ خرابیاں ہیں جن سے امریکی معاشرہ گزر رہا ہے لیکن بدلے میں اسلامی خاندانی نظام کہیں پر رائج نھی جسے دیکھ کر گوری اقوم متاثر ہو سکیں۔ ہم تو الٹا انہی کی پیروی پر لگ گئے ہیں۔ ایک تو ہم علاقای کلچر کا شکار ہیں اوپر سے گورا کومپلیکس کا شکار ہو گئے ہیں۔

اسلام نے چودہ سو سال پہلے ایک بگڑے معاشرے کو نیا خاندانی نظام سکھایا تھا اج بھی وقت تقاضا کر رہا ہےکہ اسلام کی خاندانی نظام کی عملی شکل دکھای جاے تاکہ گورے کو زبان سے اسلام سکھانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ وہ اس نظام کو دیکھ کر ھی متاثر ہو جاے۔

۳-

مغرب اور امریکہ کی اکانومی بظاھر بہت مظبوط نظر اتی ہے لیکن دنیا میں سوشلزم کمیونزم کیپیٹالزم کا نظام عام آدمی کی زندگی میں بہت سی منفی اثرات رکھتا ہے۔ اس بارے میں ایک کتاب نظام ربوبیت کا ضرور مطالعہ کیجیے۔ دوسری طرف ہم اسلام کا نظام معیشیت دنیا کہ سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

الغرض لسٹ تو بہت لمبی ہے پر تحریر کو اس سوال کہ ساتھ یہیں ختم کرتا ہوں کہ اپکی نظر میں اسلامی نظام کی طرف جانے کہ لیے کیا کوشیش کرنی ھو گی؟

نظام کی تبدیلی قربانی مانگتی ہے کیا ھم سب تیار ھیں قربانیاں دینے کو؟

لیکن 

جب تک ھمیں مقصد کا نہ پتہ ہو اور لاحہ عمل سامنے نہ ہو تو بھلا قربانی کہ لیے کوی کیسے تیار ہو سکتا ہے۔ جب تک ممبر رسول عبادت کی تبلیغ کرتے رہیں گے اور نظام کی گفگو نھی کریں گے تب تک عام شہری دیہاتی بندہ کیسے سمجھے گا کہ اسلامی نظام کیا ہے؟ 

ایک مولوی کو کم از کم سو لوگ ہر جمعہ کی نماز میں سنتے ہیں اور پاکستان میں لاکھوں مساجد ہیں سوچیں اگر ہر مولوی اس کیلیپر کا ھو اور عبادت کہ ساتھ نظام بدلنے کی بات کرے نظام بدلنے کے حل بتاے تو کتنے کم ٹائم میں یہ ملک کتنا آگے نکل سکتا ہے۔ 

انشااللہ اگلی تحریر میں اس پر بات ہوگی کہ پاکستان میں کیسے نظام بدلنے کی جدوجہد شروع کی جا سکتی ہے۔ 


Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

حکمت جزبات سے بہتر ہے