ناقابل برداشت

 اماں ایک بات بتاو

کیا ہمارے نبی کے اصحاب جذباتی تھے-

یہ سنتے ہی ثوبیہ کی ماں نے یکدم مڑ کر اسے دیکھا لیپٹوپ سایڈ پر رکھا اور بیٹی کی طرف متوجہ ہوی


یہ کیسا سوال ہے ثوبیہ-

اماں بتاو تو صحیح۔

ایسے سوال مت پوچھا کر۔ اماں بولی


تو اپکے پاس بہی جواب نہیں کیا- میری مدرسے کی ٹیچر کے پاس بھی جواب نہیں تھا-


جواب ہے میرے پاس لیکن تم پہلے بتاو تمہیں کیا لگتا ہے- ایسا سوال کیسے ایا دماغ میں 

اماں نے کراس سوال کیا-


اماں میں جب جب کسی عالم کو سنتی ہوں مجھے ایسے لگتا ہے جیسے سب صحابہ جذباتی تھے۔ وہ عقل کی بجاے جذبات سے فیصلہ کیا کرتے تھے- 

کل طارق جمیل صاحب کا ایک موٹیویشنل بیان سنا- انہوں نے حضرت خالد بن ولید کے بارے میں کہا کہ وہ نبی کا بال اپنی ٹوپی میں رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے فتح اس نبی کہ مقدس بال کی برکت سے ہوتی ہے- اور پھر طارق جمیل نہ مذید کہا کہ یہ حضرت خالد کی نبی سے نسبت تھی کہ وہ کبھی کوی جنگ نہیں ہارے-

اب دیکھو نہ اماں 

ایسے بیان سے یہی پتہ لگا کہ حضرت خالد کو فتح انکی جنگی حکمت عملی انکی پلاننگ اور دوران جنگ بروقت درست فیصلوں کی بجاے بس نبی کہ بال کی نسبت سے خود بہ خود ہو جاتی تھی- اماں میں اس بات سے انکار نہیں کر رہی کہ انکی فتح میں غیبی مدد شامل نہیں تھی-بلکل تھی انکا ایمان پاورفل تھا- وہ اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے-انکی ذات ہمارے لیے تاروں کی مانند ہے- 


لیکن اس کا دوسرا پہلو کیوں نہیں بتایا جاتا-


وہ کونسا پہلو ہے جو بڑے بڑے عالم نھی سمجھے اور تیرے عقل میں ا گیا- اماں نے ٹوکٹے ہوے کہا-


اماں دوسرا پہلو علمی ہے۔ حضرت خالد تو ایمان لانے سے پہلے بھی کوی جنگ نہیں ہارے تھے- اسکا مطلب کیا ہوا اماں- ذرا سوچو-

مطلب یہ کہ ایک سپاہی اگر چست ہے، ذہین ہے،بہادر ہے، جسمانی اور ذہنی طور پر  مضبوط ہے تب ہی وہ جرنیل بن سکتا ہے-کبھی بھی کوی صوفی جو نہ ورزش کرتا ہو نہ تلوار چلا سکتا ہو نہ اسکی جسمانی فٹنس اچھی ہو وہ ساری عمر قران پڑھتا رھے  روزہ رکھتا رہے وہ جرنیل نہیں بن سکتا- اسکو ثواب تو ملتا رہے گا مگر جنگ لڑنے کے قابل وہ نہیں سمجھا جاے گا- 


اماں فرشتےظاہری شکل میں مدد کو تب اتے ہیں جب اپ کے پاس اسباب کی کمی ہو جیسے غزوہ بدر میں ہوا- ننگے جسم، چند تلواریں، چند گھوڑے اور تعداد بھی کم- اس موقع پر ظاھری اسباب کی غیر موجودگی میں توکل اللہ کرنے سے فرشتے مدد کو آے-

لیکن جب اللہ نے اسباب سے نواز رکھا ہو ہتھیار خریدنے کے پیسے ہوں حکمت عملی بنانے کا ٹائم ہو اس وقت اسباب کو اگنور کر کے بس ھاتھ دعا میں اٹھانے سے مدد نہیں ملا کرتی- پہلے اسباب پورے کرنے پڑتے ہیں پھر ھاتھ دعا کے لیے اتھانا پڑتا ھے- اس دعا کہ ساتھ کہ اللہ مجھ سے جو ہوا کردیا اب تیرے حوالے-


ہمارے علما یہ بات بچوں کو اس طرح کیوں نہیں بتاتے کہ حضرت خالد کی طرح حکمت عملی بنانا سیکھو- حضرت خالد کی طرح پریشر ھینڈل کرنا سیکھو- 

علما بتاتے ہیں کہ حضرت خالد پر نبی کی نگاہ کہ طفیل اللہ کا اتنا کرم تھا کہ وہ ایک بار تین ہزار سپاہیوں کہ لشکر کو ایک لاکھ کی فوج کہ حصار سے بچا کر خیریت سے مدینہ لے اے- اس لیے بچو، ایمان مضبوط رکھو۔ 


اماں یہ بات ایسے بھی تو بتای جا سکتی ہے نہ کہ حضرت خالد کی جنگی حکمت عملی اتنی زبردست تھی کہ وہ لاکھوں کی فوج کہ منہ سے اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکال لاے- اس لیے بچو حکمت عملی بنانا سیکھو اور اپنے دماغ کو اچھی تدبیر کرنے کے قابل کرو-اور جب اسباب تیار کر چکو پھر اللہ کے حوالے کردو کیوں کہ فتح اسکے ھاتھ میں ہے-


اماں جب بچوں کی دین کی جذباتی تشریح سمجھا کر مسلمان بنایا جاے گا تو وہ کل کو دین کہ نام پر لڑیں گے مریں گے سر کٹوایں گے لیکن دین پر عمل نھیں کریں گے-  


اماں کل میں تمھیں مذید ایسے ریفرنس دوں گی جنکی بنیاد پر مجھے لگتا ہے کہ ھمارے مذھبی سپیکرز نے دین کو جذبات کا کھیل بنا رکھا ہے بس-


ثوبیہ میرے علاوہ کس سے یہ باتیں کی ھیں تم نے-

اماں نے پوچھا-

کسی سے نہیں اماں-


اماں نے ثوبیہ کو گلے سے لگایا ایک آہ بھری اور سوچنے پر مجبور ہو گئ کہ ایسے معاشرے میں اسکی بیٹی کا کیا مستقبل ھو گا جہاں لوگ مذہب کہ نام پر گردنیں اتارنے پر تلے ہوں- ایسے سوال کو سننے کے لیے معاشرے میں کوی شخص نظر نہیں اتا- سب ہی تو جذباتی ہیں- علمی عقلی دلیل کو کون برداشت کرے گا۔ 

یا اللہ میری ثوبیہ کی حفاظت فرما

Comments

Popular posts from this blog

فضائے بدر

ہائے ‏ہائے ‏عربی

یقین ‏کامل